کراچی: لسبیلہ سے چڑیا گھر جاتے ہوئے سگنل سے پہلے الٹے ہاتھ کی فٹ پاتھ پر ادھیڑ عمر کاریگر ٹریفک کے شور شرابے سے بے نیاز ہوکر بانس اور سرکنڈے کی چھال سے فرنیچر اور جھولے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
گاڑیوں سے نکلنے والے کثیف دھوئیں اور گرمی کی وجہ سے ان کا پورا لباس پسینے میں تربہ تر ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد گہری سانس لے کر پیشانی سے پسینہ صاف کرنے کے بعد یہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں بھی حلال رزق کمانے کی لگن بہت پختہ ہے۔
عبدالرؤف کین فرنیچر بنانے کے ماہر کاریگر ہیں اور گزشتہ 35سال سے اسی فٹ پاتھ پر اپنا ڈیرا جمائے ہوئے ہیں سڑک سے گزرنے والے لاکھوں شہری ان کے بنائے فن پارے دیکھ کر تعریف کرتے ہیں اور خریدنے کی سکت رکھنے والے ان کی قیمت بھی معلوم کرتے ہیں عبدالرؤف کی عمر 55 سال ہے، وہ 6 بیٹوں کے باپ ہیں جن کی کفالت انھوں نے کین کا فرنیچر بنانے کے ہنر سے ہی کی اور 3 بیٹے اپنے گھر بار کے ہو گئے جبکہ 3 بچے ان کے ساتھ ہیں اور پڑھائی کے بعد فارغ وقت میں اپنے والد کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔
درآمدی فرنیچر کی کمی سے کین فرنیچر کے کام کو تقویت ملی
عبدالرؤف صبح سویرے کام کا آغاز کرتے ہیں اور شام ڈھلنے تک کام کرتے رہتے ہیں اس کام کے لیے وہ کسی بھی قسم کے بجلی سے چلنے والے اوزار استعمال نہیں کرتے اور تمام کام دن کی روشنی میں کرتے ہیں اس لحاظ سے ان کے کام کو مکمل طور پر ماحول دوست کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، ماحول کے تحفظ کا شعور بڑھنے اور طرز زندگی تبدیل ہونے کی وجہ سے اب کین سے بنے فرنیچر کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے چین سے درآمدی آرائشی فرنیچر کی درآمد میں کمی آنے اور مقامی سطح پر آرائشی فرنیچر بننے سے بھی کین کے فرنیچر کے کام کو تقویت ملی ہے۔
سرمائے کا انتظام ہو جائے تو ورکشاپ یا دکان بنانے کا ارادہ ہے، عبدالرؤف
خام مال ادھار پر لے کر فرنیچر تیار کرتا ہوں جو آمدن ہوتی ہے گھر کے اخراجات میں پوری ہوجاتی ہے یہ بات عبدالرؤف نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ کچھ پس انداز نہ ہوسکا اب اگر سرمایہ جڑ جائے تو وہ ایک ورکشاپ یا دکان کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ اپنے بچوں کو اس کام کی جانب راغب کرکے یہ فن اگلی نسل کو منتقل کر سکیں۔
خواہش ہے کین فرنیچر بنانے کا فن قائم ودائم رہے
عبدالرؤف کی خواہش ہے کہ کین سے فرنیچر بنانے کا یہ فن قائم و دائم رہے اور نئی نسل تک منتقل ہوتا رہے اس کے لیے وہ اس ہنر کی آرٹ انسٹی ٹیوٹ اور کالجز کی سطح پر ترویج کے خواہش مند ہیں، عبدالرؤف کہتے ہیں کہ ان کے بچے اس کام میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے جس سے انھیں خدشہ ہے کہ وہ اپنے خاندانی ہنر کو آگے منتقل نہیں کر پائیں گے۔
فن ورثے میں ملا،والداورداداانڈیامیں یہ کام کرتے تھے
سوال یہ ہے کہ آخر 6 جوان بیٹوں کا باپ ہونے کے باوجود وہ فٹ پاتھ پر بیٹھے ہنر سے روزی کمانے کے لیے سخت محنت کیوں کررہے ہیں، اس سوال کے جواب سے قبل بھی عبدالرؤف نے حسب عادت ہر جملے کے آغاز کی طرح ’’شکر ہے مالک کا‘‘ دہرا کر کہا کہ اپنے ہاتھ سے روزی کمانے کا لطف ہی کچھ اور ہے، کام کرتا رہوں گا تو ہاتھ پیر چلتے رہیں گے اور مہنگائی کے اس دور میں محنت کیے بغیر گزارا نہیں ہے، عبدالرؤف نے بتایا کہ ان کے دیگر عزیز رشتے داروں نے بھی ان سے یہ کام سیکھا ہے اور اس ہنر سے روزی کماتے ہیں 3 بچے بھی اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ فن انھیں ورثے میں ملا ہے ان کے باپ دادا بھی یہی کام کرتے آئے اور قیام پاکستان سے قبل ان کے والد اور دادا یہی کام بھارت میں کرتے تھے انھوں نے کہا کہ بھارت میں کیونکہ اعلیٰ معیار کے سرکنڈے او بانس اگتے ہیں اس لیے یہ کام وہاں بہت مقبول تھا، پاکستان میں کیونکہ بانس نہیں اگتا اس لیے درآمدی خام مال سے کین کا فرنیچر تیار کیا جاتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ درآمدی خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے اس لیے کین سے تیار فرنیچر کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔
کین فرنیچرکاکام درآمدی فرنیچرکی یلغارسے متاثرہوا
عبدالرؤف نے بتایا کہ کین سے فرنیچر سازی ایک محنت طلب کام ہے جو خام مال کی قیمت بڑھنے اور درآمدی فرنیچر کی یلغار، پلاسٹک کے فرنیچر کی فراوانی کی وجہ سے متاثر ہوا اور بیشتر کاریگروں نے یہ کام ترک کردیا اور اپنا فن بھی آگے کسی کو منتقل نہیں کیا۔
کراچی میں اب گنے چنے کاریگر رہ گئے ہیں، کین فرنیچر کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت ایک ہزار روپے کلو سے 3 ہزار روپے کلو تک ہے اور خام مال کی تجارت پر مخصوص امپورٹرز اور ٹریڈرز کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے خام مال مہنگا ہونے کے ساتھ آسانی کے ساتھ مطلوبہ مقدار میں بھی دستیاب نہیں ہوتا اسی وجہ سے کین سے تیار مصنوعات کی قیمتیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
جھولااورجھولنے والی نشست تیارکرنے میں 2 دن لگتے ہیں
کین فرنیچر کے ماہر کاری گر عبدالرؤف کے مطابق ایک جھولا یا جھولنے والی نشست تیار کرنے میں کم و بیش دو روز لگتے ہیں، کین سے تیار مصنوعات میں صوفہ سیٹ، کتابوں کے ریک، دیوار کی آرائشی اشیا، کافی ٹیبل وغیرہ شامل ہیں، کین کے فرنیچر کی عمر لکڑی کے دیگر فرنیچر کی طرح طویل ہوتی ہے اور اس کے مرمت اور پالش بھی ہوجاتی ہے۔
عبدالروئف کے مطابق کسی بھی آئٹم میں 70فیصد خام مال اور 30فیصد مزدوری شامل ہوتی ہے، عبدالروؤف نے کہا کہ کین کے فرنیچر میں عوام کی دلچسپی بڑھ رہی ہے چھوٹے گھروں اور فلیٹس کے مکین بھی کین فرنیچر کی جانب راغب ہورہے ہیں بالخصوص بچوں اور بڑوں کے لیے کین سے تیار کردہ جھولے بہت تیزی سے مقبول ہورہے ہیں جو بالکونیوں اور مہمان خانوں میں چھت سے لٹکائے جاتے ہیں یا پھر لوہے کے مضبوط اسٹینڈ میں ہک کیے جاتے ہیں۔
The post فٹ پاتھ پر کین فرنیچر بنانے والا کاریگر توجہ کا مرکز بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2200887/1