غوروفکر کرنا یا بحث و مباحثہ کرنا ہرگز غلط بات نہیں، بلکہ یہ تو زندہ قوموں کی نشانی ہے اگر یہ تمیز کے دائرے میں رہ کر کیا جائے تو، ورنہ یہ زمانہ جہالت کی عکاسی کرتا ہے۔ غوروفکر اور مکالموں کے عنوان بھی قوموں کی ترجیحات اور ان کی فکری پختگی اور انفرادی سوچ کا پتہ دیتے ہیں، نیز یہ کسی بھی معاشرے کی سمت بھی متعین کرتے ہیں۔
آج کل کی ’اطلاعاتی جنگ‘ کے دور میں جہاں سوشل میڈیا روایتی میڈیا کو افراد کی ذہن سازی اور رائے سازی میں کہیں پیچھے دھکیل چکا ہے، وہیں ’پروپیگنڈا‘ اور ’سائی آپس‘ کی اصطلاحات بھی معلوماتی (ڈومین) دور میں کوئی نئی چیز نہیں۔ بلکہ اب یہ باقاعدہ حربی تکنیک کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ جس سے دشمن اپنے ہدف ممالک کے لوگوں کو اپنی ہی ریاست، حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف ورغلانے اور ایک دوسرے کے خلاف اکسانے کی سعی کرتا ہے۔
PSYOPS سائی آپس یعنی سائیکالوجیکل آپریشنز (نفسیاتی جنگی کارروائی) میں دشمن لوگوں کے ذہنوں، خیالات اور نظریات کو ضرب لگاتا ہے اور یوں کسی بھی ریاست کی فکری اساس دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگتی ہے۔ افراد اپنے قومی اداروں سے متنفر اور ملک سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں، یہ جانے بغیر کے وہ دشمن کی لگائی آگ میں جھلسنا شروع ہوگئے ہیں یا اس کی جنگ کا ہدف بن چکے ہیں۔
نفسیاتی جنگ میں میدان جنگ ملک کی زمینی سرحدیں نہیں بلکہ اس کے ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں، جہاں سے من گھڑت، غلط سلط، مبالغہ پر مبنی معلومات مختلف ملمع کاری کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں تک پہنچائی جاتی ہیں اور لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرکے ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ نوجوان اپنی ریاست سے منہ موڑ کر باہر بھاگنے اور دوسرے ممالک کی شہریت لینے کے متمنی بن جاتے ہیں اور بعد ازاں، شرپسند تنظیموں کے جھانسے کا شکار ہوکر اپنی ہی سرزمین کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائی سے اطلاعاتی ڈومین میں سوشل میڈیا نے اپنا ایک خاص مقام بنالیا ہے۔ جو کہ دنیا بھر کے ممالک کےلیے حوصلہ افزا نہیں بلکہ ایک تشویشناک امر ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پیغام رسانی کا سب سے تیز رفتار ذریعہ ہے، جہاں کوئی بھی پیغام بنا کسی تصدیق اور ثبوت کے پل بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں تک پہنچ کر ایک مہم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جسے سوشل میڈیا کی اصطلاح میں ٹرینڈ کہتے ہیں۔ یہ ٹرینڈز پینل پر آتے بھی ہیں اور لائے بھی جاتے ہیں۔ جہاں تک ان ٹرینڈز کے آنے کا سوال ہے، بعض اوقات ایسے ٹرینڈز چلتے ہیں جس سے پاکستان کے قومی بیانیے اور ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، مثلاً حال ہی میں ایک ٹرینڈ پاکستان میں پینل پر ٹاپ ٹرینڈ تھا ’طالبان ہمارے محافظ‘ ( طالبان آور گارجین)۔
اب کوئی بتائے کہ نیکٹا کا کردار کدھر ہے؟ اس میں بیٹھے لوگوں کو بھاری بھرکم تنخواہیں آخر کس خدمت کے عوض دی جارہی ہیں؟
ایسا ٹرینڈ جو پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے قومی بیانیے سے متصادم ہے، وہ بھلا کیسے پینل پر اول درجے پر آگیا؟ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے، اُدھر ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہورہا تھا اِدھر پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایسا ٹرینڈ چل رہا تھا۔ یاد رہے، بین الااقوامی فورمز پر زندہ اور پُروقار قومیں اپنا مقدمہ ایسے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے نہ تو کبھی لڑ سکتی ہیں اور نہ ایسے کبھی بھی جیت سکتی ہیں۔
جہاں تک ان ٹرینڈز کا دانستہ طور پر پینل پر لائے جانے کا تعلق ہے تو واضح رہے یہ رواج نفسیاتی جنگ کا ایک اہم ترین تکنیکی پہلو ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک پاکستان میں سوشل میڈیا پر بہت سے ٹرینڈز دانستہ طور پر باقاعدہ پلان کے تحت بھارت سے پینل پر لائے جانے کا انکشاف متعدد بار حکومتی ذرائع سے کیا جاچکا ہے۔ ان ٹرینڈز میں زیادہ تر پاکستانی فوج، فوجی جرنیلوں یا سپاہ سالارِ پاک فوج کو ہدف بنایا گیا اور بسا اوقات پاکستان کی دکھتی رگ بلوچستان میں انتشار کو ہوا دینے اور شیعہ سنی تفرقہ بازی کو بھڑکانے کی مذموم کوششیں ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کیوں باآسانی دشمن کی لگائی آگ یا اس کی شروع کردہ فکری جنگ کا شکار ہورہے ہیں؟ اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے۔ تیلی بھلے دشمن باہر بیٹھ کر لگاتا ہے مگر اس آگ کو بھڑکانے کےلیے آکسیجن کا کام بدقسمتی سے ہمارے اپنے ہی لوگ غیر دانستہ طور پر یا بسا اوقات اپنے کسی سیاسی، سماجی یا مخصوص بغض کے پیش نظر سر انجام دیتے ہیں۔ باہر سے تیلیوں پر قابو پانا بلاشبہ حساس اداروں کا کام ہے مگر جب گھر کو گھر کے اپنے چراغوں سے آگ لگنا شروع ہوجائے تو ریاست کو بیدار ضرور رہنا چاہیے، کیونکہ یہ کسی بھی بڑے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تو ہے ہی بلکہ یہ آپ کی ریاست میں دشمن کے بیانیے کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ ایسی صورت میں ان چراغوں کو گل کرنا ہی حقیقی سمجھداری ہے، ناکہ انہیں رنگ و روغن کرکے پھر سے اپنے سرہانے سجانے کی تیاری کرنا۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ستر سال سے بھی زیادہ کا وقت بیت چکا ہے مگر ہم ابھی تک بدقسمتی سے ایسی حدود و قیود متعین نہیں کرسکے، جن کے تحت ریاستی اداروں اور ریاست کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نشان عبرت بنایا جاسکے۔ واضح رہے، دشمن کے پروپیگنڈے کا تدارک دوسرے مرحلے میں آتا ہے، پہلا مرحلہ آستین کے سانپوں کو کچلنے کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئے روز کبھی سیاسی لیڈران تو کبھی کچھ مخصوص نام نہاد صحافی ایسے شوشے چھوڑتے ہیں جنہیں بنیاد/ ریفرنس بنا کر بھارت اپنے چینلز پر رپورٹس نشر کرتا ہے۔ ایسے گھر کے بھیدیوں سے باز پرس ضرور کی جانی چاہیے جو لنکا کو بار بار نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ انہیں کھلی چھوٹ دینا کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوسکتا۔
ایک اور روش جو پاکستان کے سوشل میڈیا پر گمبھیر صورت اختیار کرتی جارہی ہے اور ملک کو تواتر سے نقصان بھی پہنچا رہی ہے، وہ یکے بعد دیگرے مختلف کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی کا باعث بننا ہے۔ مثلاً مسنگ پرسنز اور عورت کارڈ وغیرہ کا بے جا استعمال۔ عورت کارڈ کا استعمال تو تواتر سے وزیراعظم پاکستان کے خلاف ہورہا ہے۔ اس انتہاپسند روش کے تحت مغرب سے متاثر چند افراد کا مخصوص ٹولہ اپنی سوچ کو معاشرے کی اکثریتی آبادی پر تھونپنے کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مگر انہیں کیا فرق پڑتا ہے، ان کی دکانیں (نام نہاد این جی اوز) تو باہر سے مظلوم عورتوں کے نام پر آنے والی فنڈنگ کے بل بوتے پر ہی چمک رہی ہیں۔
بلاشبہ فیس بک سے لے کر ٹویٹر، یوٹیوب، اسنیپ چیٹ، یا انسٹاگرام سبھی اپنے طور پر اب ’اسٹرٹیجک کردار‘ بن چکے ہیں۔ لہٰذا اس معلوماتی دور کی غیر روایتی جنگ میں شامل ہونے کےلیے ایک خصوصی ’سوشل میڈیا فورس‘ تشکیل دینا قطعاً کوئی اچنبھے یا شرم کی بات نہیں۔ پوری دنیا اس ڈگر پر اب مائل ہوچکی ہے جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق چینی حکومت صرف ایک سال میں 448 ملین سماجی تبصرے گھڑتی اور پوسٹ کرتی ہے۔ روس نے اسی طرح اپنی جغرافیائی سیاسی جگہ کو محفوظ بنانے کےلیے جدید ٹرولز کی جدید حکمت عملی تیار کی ہے۔ علاوہ ازیں، اسرائیلی دفاعی فورس (آئی ڈی ایف) نے سوشل میڈیا کا استعمال 2000ء کے دوسرے حصے کے بعد سے میدان جنگ میں ایک قوت ضرب کے طور پر کیا ہے۔ اور تو اور برطانوی فوج نے جنوری 2015 کے آخری حصے میں ایک خصوصی سوشل میڈیا فورس تشکیل دی۔ لہٰذا پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی اس ضمن میں اپنی کاوشوں پر کسی قسم کی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ وہ فکری جنگ جو پاکستان پر مسلط کی جاچکی ہے اس کے اہم ترین رہبر ہیں۔
یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل انقلاب اور سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی بدولت، افراد بالخصوص غیر ریاستی کردار بہت زیادہ حد تک عام لوگوں اور معاشروں کے اندر تک رسائی حاصل کرچکے ہیں اور زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ وہ بیانیے/ معنی کے خالق بھی ہیں اور اداروں و مشنوں کا مقابلہ کرنے والے بھی، نیز اس کے ساتھ ساتھ وہ عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے اس جدید اطلاعاتی دور میں بیانیے کی جنگ کی اہمیت کا بروقت ادراک اور اس کی موثر کاؤنٹر حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔
یہ بات تو عیاں ہے کہ وقت کے بڑھتے قدموں کے ساتھ چلنے میں ہی سمجھداری ہے۔ لہٰذا اس میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی، کوتاہی یا تاخیر کسی بھی ریاست کےلیے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post سوشل میڈیا اور نفسیاتی جنگ appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2198506/464