گیارہ ستمبر کو امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکا نے اسامہ بن لادن کی تلاش کےلیے افغانستان پر حملہ کیا اور بیس سال تک افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کےلیے قیام کیا۔ امریکی فوج نے کچھ حاصل کیے بغیر بدامنی، انتشار، جانی و مالی نقصان دے کر افغانستان سے انخلا شروع کردیا ہے اور رواں سال کے ستمبر تک یعنی دو ماہ میں امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ لیکن جاتے جاتے ایک بار پھر افغانستان میں بدامنی کے بادل چھوڑے جارہے ہیں، جس کے اثرات یقیناً پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔
افغانستان میں کچھ ہوا یوں کہ 1979 میں اس وقت کی عالمی طاقت سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کردی اور افغانستان پر حملے کا مقصد صرف افغانستان فتح ہی نہیں کرنا تھا، روس نے پاکستان کو بھی اپنے نشانے پر لیا ہوا تھا۔ لیکن روس کے مقاصد کو ناکام بناتے ہوئے اسے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد مستحکم افغانستان کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ افغانستان اب تک اندرونی طور پر حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کے اثرات نے اب تک پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہر نئے دن کے ساتھ پاکستان کےلیے بھی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔
روس کے جانے کے بعد افغانستان میں افغان طالبان حکومت کے قیام کے بعد کسی حد تک حالات بہتری کی طرف رواں تھے، لیکن گیارہ ستمبر 2001 میں جب امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا اور اس حملے کی ذمے داری اسامہ بن لادن پر ڈالی گئی تو امریکا اسامہ بن لادن کو ڈھونڈتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوگیا۔ اسامہ کی تلاش پر بے گناہ افغانوں کا خون بہایا گیا۔ افغان سرزمین پر تاریخ کی بدترین بمباری کی گئی اور اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔
گیارہ ستمبر 2001 سے قبل افغانستان، پرامن افغانستان کی طرف گامزن تھا لیکن گیارہ ستمبر کے واقعے نے ایک بار پھر حالات بدل دیے اور افغانستان کی سرزمین سے اٹھنے والی بدامنی کی لپیٹ نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ افغانستان کی جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے پر پاکستان کو بم دھماکوں کی صورت میں بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ جانی و مالی قربانیوں کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کی لہر کو ختم کیا۔ ملک میں امن کے قیام میں پاک فوج، پولیس، پاکستانی شہریوں اور سیاستدانوں نے جانوں کی قربانیاں دیں۔ آج بھی پاکستانی عوام بم دھماکوں کی گونج سے سہمے سہمے سے ہیں۔
افغان جنگ کے پاکستان پر اثرات 1979 کے روسی حملے کے بعد ہی پڑنا شروع ہوگئے تھے۔ افغانیوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا اور اس وقت سے پاکستان آنے والے افغانی پاکستان کے ہی ہوکر رہ گئے۔ افغان مہاجرین کیمپوں تک محدود نہیں رہے، انہوں نے پاکستانی شہری آبادیوں کا رخ کیا، کاروبار شروع کیا۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان میں مستقل قیام اختیار کرلیا۔
روس کے افغانستان سے جانے اور پھر امریکا کی افغانستان میں مداخلت کے بعد افغانستان میں بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آئی۔ امریکا اسامہ کی تلاش میں افغانستان آیا لیکن 20 سال تک رہنے کے بعد کچھ حاصل کیے بغیر رخصت ہورہا ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد اب ایک بار پھر افغانستان میں اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ افغان طالبان نے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان دارالحکومت کابل کے قریبی علاقوں تک رسائی حاصل کررہے ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں ایک بار پھر افغانستان کی اندرونی معاملات کے اثرات پاکستان پر پڑنے کا خطرہ موجود ہے۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال نہ صرف حکومت پاکستان کےلیے پریشانی کا باعث ہے بلکہ خیبرپختونخوا میں بسنے والے شہری اور سیاسی قیادت بھی آنے والے دنوں کے حوالے سے پریشان ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحد کے قریب افغان شہریوں کے انخلا کی صورت میں کیمپ بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق پاک افغان سرحد پر باڑ لگادی گئی ہے اور رواں ماہ کے آخر تک یہ کام مکمل کرلیا جائے گا۔ اگر افغانی شہری ایک بار پھر مہاجرین کی زندگی گزانے پر مجبور ہوتے ہیں تو اس کے اثرات ایک بار پھر پاکستان پر پڑنے کے امکانات ہیں۔ اسی لیے حکومت پاکستان کو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر مستقبل کےلیے لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ اگر افغانستان میں مفاہمتی عمل شروع نہیں ہوتا، وہاں بات چیت کے بجائے اگر لڑائی کا عمل شروع ہوتا ہے تو پاکستان کو ایک بار پھر افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات کےلیے تیار رہنا ہوگا۔ گزشتہ دس سال کے دوران پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی بڑی تعداد افغانستان واپس جاچکی ہے۔ اب افغانی شہری علاج معالجے اور کاروباری غرض سے پاسپورٹ اور ویزے پر قانونی طریقے سے پاکستان آتے جاتے ہیں۔ اگر اقتدار کابل کی جنگ جاری رہتی ہے تو افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ایک بار پھر پاکستان کا رخ کرسکتی ہے۔
افغانستان کی بدامنی سے منڈلانے والے خطرات سے بچاؤ کےلیے خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد میں ایک طویل نشست ہوئی اور ممکنہ خطرات سے بچنے کےلیے صف بندی کی جارہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے تو واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ پرائی جنگ کا کیوں حصہ بنیں۔ انہوں نے امریکا کو ہوائی اڈے دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔ لیکن حکومت کو مغربی سرحدات سے اٹھنے والے خطرات کے بادلوں کو روکنے کےلیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملکی معاشی صورتحال بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا جاسکے۔ اس حوالے سے حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا اور ملکی مفاد میں سیاسی جماعتوں کو بھی حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ آنے والے وقت کےلیے ابھی سے پیش قدمی کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post افغانستان کے جنگی حالات اور اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2196746/464