بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھنا بھارت اور بالخصوص مودی حکومت کی کامیابی ہے۔
پاکستان میں بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کو اعتراف جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ ہمارے حکومتی عہدیدار پھولے نہیں سما رہے کہ دیکھیں ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ہم بھارت کہ وجہ سے فیٹف میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب بھارت نے خود بھی اس بات کااعتراف کر لیا ہے۔ اس لیے ہماری بات سچ ثابت ہو گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں موجودہ حکومت کا یہ موقف عوام کو بیوقوف بنانے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کی کوشش ہے۔
بھارت نے ہمیں فیٹف میں پھنسایا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارت نے ہمیںپھنسایا تو آپ کیا کر رہے تھے۔ جب بھارت نے پاکستان کے خلاف سفارتی محاذ جنگ کھولا ہوا تھا، ہم کیا کر رہے تھے۔ جب فیٹف کے ہرا جلاس میں پاکستان ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے تو ہمارے وزیر خارجہ بیان جاری کرنے کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں۔
جب بھارت دنیا کے ممالک کو پاکستان کو فیٹف میں برقرار رکھنے کے لیے قائل کر رہا تھا تو ہم کیا کر رہے تھے۔ جب بھارت دنیا کو قائل کر رہا تھا کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ ہے تو ہم کیا کر رہے تھے، جب بھارت ہمیں دنیا کے سامنے رسوا کر رہا تھا، سوال یہ کہ ہماری حکومت کیا کر رہی تھی۔
آج کی دنیا میں روایتی جنگیں نہیں ہوتیں۔ اب سفارتی اور معاشی جنگیں ہو تی ہیں۔ آپ کو سفارتی محاذ پر تنہا کر کے دشمن آپ کو مارتے ہیں۔ جو کامیابیاں روایتی جنگ سے نہیں حاصل کی جاتیں وہ سفارتی جنگ سے حاصل کی جاتی ہیں۔ سفارتی جنگوں کے نتائج روایتی جنگوں سے بھی زیادہ خطرناک بن کر سامنے آئے ہیں۔ آجکل ہمارے ملک میں طالبان کے دوبارہ بہت گیت گائے جا رہے ہیں۔
لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ طالبان نے پہلے سفارتی محاذ پر شکست کھائی، دوسری شکست کی باری تو بہت بعد میں آئی تھی۔ صدام حسین کے پاس کیمیکل ہتھیار نہیں تھے۔ لیکن دنیا نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح ایران سمیت بہت سے ممالک اپنی سفارتی ناکامیوں کی وجہ سے ہی عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔ کیا پاکستان بھی اپنی سفارتی ناکامیوں کے وجہ سے اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہونا چاہتا ہے۔
پاکستان میں کلبھو شن کی بہت بات کی جاتی ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری پاکستان کے حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن ہم نے یہ تمام کامیابی سفارتی محاذ پر ضایع کر دی ہے۔ آج ہم پاکستان میں کلبھو شن کو ریلیف دینے کے لیے خصوصی قوانین بنانے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ہم نے عالمی عدالت انصاف میں اپنا کیس درست طریقے سے پیش نہیں کیا۔ دنیا ہمیں کلبھو شن کو ریلیف دینے اور حافظ سعید کو سزا دینے پر مجبور کر رہی ہے اور ہم سفارتی جنگ ہارنے کی وجہ سے مجبور ہیں۔
آپ ایک ملک کے ساتھ تو لڑ سکتے ہیں لیکن پوری دنیا کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔ اقوام عالم میں آپ کو اپنی بات اپنی متحرک سفارتی پالیسی اور دلیل سے ہی منوانی پڑتی ہے۔ آپ کی دلیل بھی آپ کے دوست ہی سنتے ہیں۔ آپ کی دلیل پر قائل بھی آپ کے دوست ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے دلیل سے پہلے دوست بنانے پڑتے ہیں۔ دشمن نہ آپ کی دلیل کو مانتا ہے اور نہ ہی آپ کی دلیل سے قائل ہوتا ہے۔ اگر آج فیٹف کے معاملے پر دنیا کے بڑے ممالک ہم سے قائل نہیں ہو رہے تو اس کی دو بنیادی وجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ اس وقت وہ ہمارے دوست نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہماری دلیل میں وزن نہیں ہے۔
فیٹف کے معاملے میں ہماری دلیل میں وزن ہے بھی تو دنیا ہماری دلیل سننے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ دنیا ہمیں اپنا دوست نہیں سمجھتی۔ آج کی دنیا میں آپ عالمی تنہائی کا شکار ہوکر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیا ہم اپنے وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ سے سوال کر سکتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے دوستوں میں کمی کیوں کی ہے۔ یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے کہ ہمارے دوستوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ جن ممالک کو ہم دوست سمجھتے ہیں وہ بھی عالمی فورمز پر ہماری حمایت نہیں کر رہے ہیں۔کون سمجھائے کہ صرف بیان دینا سفارتکاری نہیں۔
اگر کشمیر کے مسئلہ کو ہی دیکھ لیں توموجودہ حکومت او آئی سی سے بھی حمایت لینے میں ناکام رہی ہے جو ماضی میں ہمیں ہمیشہ حاصل رہی ہے۔ کیا یہ سفارتی ناکامی نہیں کہ ہم او آئی سی کا اجلاس بلوانے میں بھی ناکام رہے۔ کیا یہ کہنا کافی ہے کہ مسلم ممالک بھارت کے دباؤ میں تھے اس لیے او آئی سی کا اجلاس نہیں ہو سکا۔ نہیں یہ کہنا کافی نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہماری سفارتکاری اس قدر کمزور ہے کہ ہم مسلم ممالک کے محاذ پر بھی بھارت سے شکست کھا گئے۔ مسلم ممالک نے بھی ہماری بجائے بھارت کو ترجیح دی۔ اس پر موجودہ حکومت کی سفارتکاری پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
کیا ہم پاکستان میں اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں کہ مسلم ممالک ہم سے ناراض کیوں ہیں۔ کیوں عرب ممالک ہم سے ناراض ہیں۔ کیوں ہمارے روایتی دوست ہم سے دور ہو گئے ہیں۔ کیا عربوں کو ناراض کر کے ملائشیا اور ترکی کے ساتھ جانا سمجھداری تھی۔ پھر ہم ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ بھی نہ گئے۔ کیا صرف اس ایک بلنڈر کی وجہ سے ہم سفارتی محاذ پر ناکام نہیں ہوئے۔ آج فیٹف میں بھی عرب ممالک ہمارے ساتھ ویسے نہیں کھڑے جیسے انھیں کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے کے بجائے ہمیں خود اپنی پالیسیوں کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ ہماری اس ایک غلطی کی وجہ سے بھارت نے بہت فائدہ اٹھا یا ہے اور ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ کیا کوئی اس پر بات کر سکتا ہے۔
اب افغانستان کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ اگر ہم نے طالبان کی حمایت کرنی ہے تو اس کے لیے ہمارے ساتھ دنیاکے دیگر ممالک بھی شامل ہونے چاہیے۔ جب ترکی بھی طالبان کو کہہ رہا ہے کہ وہ بندوق کے زور پر قبضہ نہ کریں۔ اور ہم صرف طالبان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے تو اسے کامیاب سفارتکاری کہا جائے گا یا ناکام سفارتکاری کہا جائے گا۔
یہ درست ہے کہ دنیا طالبان سے بات کر رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا طالبان سے قائل نہیں ہے۔ دنیا اب بھی اشرف غنی کو افغانستان کا جائز حکمران تسلیم کرتی ہے اور طالبان کے قبضہ کو غیر قانونی تسلیم کرتی ہے۔ ایسے میں ہم طالبان کی کس قدر وکالت کر سکتے ہیں۔اسی طرح افغان سفیر کی بیٹی کا معاملہ بھی دیکھ لیں۔ یہ بھی پاکستان کے خلاف ایک سازش تھی۔ لیکن اس سازش کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا کس کاکام ہے؟ پاکستان کی تحقیقات پر جب دنیا یقین کرے گی، تب ہی اس کو سچ مانا جائے گا۔ اگر دنیا نے اس کو سچ ماننے سے انکار کر دیا تو ہم کیا کریں گے؟ ہمیں فوری طور پر تمام تحقیقات دنیا کے ساتھ شیئر کرنی چاہیے۔ کہیں اس معاملہ میں بھی دیر نہ ہو جائے۔
میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ ہم دنیا کو اپنی بات سمجھانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ہم دوست بنانے اور دوست قائم رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ بلکہ ہم نے پرانے دوست بھی کھو دیے ہیں۔ پاکستان کے دوستوں میں کمی ہوئی ہے۔ یہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی ناکام نہیں ؟اس کا جواب وزیر خارجہ ہی دے سکتے ہیں۔
The post ناکام خارجہ پالیسی appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2204432/268