دنیا بھر میں ملت ابراہیمی اللہ رب العزت کے عظیم پیغمبر سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی سنت ادا کررہی ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں آباد محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اربوں غلام دس ذوالحجہ کو نماز عید ادا کرکے قربانی کے جانوروں کو ذبح کریں گے۔ ان کے ہونٹوں پر اﷲ اکبر کے ترانے ہوں گے اور دلوں میں اﷲ کی وحدانیت کا اقرار ہوگا۔
قرآن مجید فرقان حمید میں قربانی کو شعار اﷲ قرار دیا گیا ہے ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرز فکر و عمل یا کسی نظام کی نمایندگی کرتی ہو، وہ اس کا ’’شعار‘‘ کہلاتی ہے، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ شعائر اﷲ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص اﷲ رب العزت کی توحید کا اقرار کرنے والوں کی نمایندگی کرتی ہوں۔
ایسی علامات جو جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامور ہیں، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیل کی آلودگی نے انھیں ناپاک نہ کردیا ہو۔ قربانی جہاں شعار اﷲ ہے وہاں حقیقتِ اسلام کا ایک مظہر ہے۔
اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالے کردے۔ اپنی کوئی محبوب سے محبوب چیز بھی اس پر قربان کرنے سے دریغ نہ کرے۔ اس حقیقت کا عملی مظاہرہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری پھیری (اﷲ کریم نے اسماعیل علیہ السلام کو بچانے کے لیے ان جگہ جنت سے ایک مینڈا بھجوا دیا)، وہ بندگی اور اطاعت کا تاریخ انسانی کا ایک بے نظیر و بے مثال واقعہ ہے۔
اس وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ان کی یاد میں جانوروں کی قربانی کو ایک شعیرہ کے طور پر مقرر فرما دیا، تاکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے اندر اسلام کی اصل حقیقت برابر تازہ ہوتی رہے لیکن آج کل ہمارے ہاں ایک نام نہاد لبرلز کاطبقہ جانوروں کے حقوق کی آڑ میں دراصل قربانی کی مخالفت کررہا ہے۔
انھیں خدشہ ہے کہ عید قرباں پر جتنی بڑی تعداد میں جانور ذبح ہوتے ہیں کہیں اونٹ، گائے،بکرے اور قربانی کے لیے استعمال ہونے والے دیگر جانوروں کی نسلیں ہی ختم نہ ہوجائیں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ روئے زمین سے کتے اور خنزیر جیسے جانور تو ختم ہوسکتے ہیں لیکن قربانی کے جانور قیامت کی صبح تک ختم نہیں ہوسکتے۔ ان ’’لبرلز‘‘کو قربانی کے جانور تو دکھائی دیتے ہیں لیکن اسپین کے وہ ہزاروں بیل دکھائی نہیں دیتے جنھیں چھریوں اور نیزوں کے ساتھ کھیل تماشے کی آڑ میں بیدردی سے ہلاک کیا جاتا ہے۔
ڈنمارک میں ہر سال ہزاروں ڈولفن قتل کی جاتی ہیں، یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک سمندر کا پانی ان کے خون سے سرخ نہ ہوجائے، لبرلز نے اس وحشیانہ کھیل کے خلاف تو کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ یہودی اپنے گناہ بخشوانے کی آڑ میں ہزاروں مرغیوں کو پتھروں پر پٹخ پٹخ کر ہلاک کردیتے ہیں، آج تک کسی لبرل نے ان کے اس عمل کو وحشیانہ قرار نہیں دیا۔
آسٹریلیا میں ہزاروں اونٹ فضاسے ہونے والی فائرنگ سے ہلاک کر دیے جاتے ہیں محض اس لیے کہ پانی کی قلت ہے، کیا کبھی کسی لبرل نے وہاں احتجاج کیا؟ انھیں صرف مسلمان کی قربانی دکھائی دیتی ہے، جو خالصتاً اللہ کی عبادت ہے۔ جب کوئی مسلمان اﷲ کے لیے کسی جانور کو قربان کرتا ہے اسے اسلام نے جو ہدایات بتائی ہیں وہ ان پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ چھری تیز ہو، جانور کو چارہ و پانی ڈالا ہو، ذبح کرتے وقت کوئی اور جانور سامنے نہ ہو۔ ایک مسلمان کو سکھایا گیا ہے کہ جس جانور کو اﷲ کی راہ میں قربان کر رہے ہو اسے ذبح کرتے وقت اتنی احتیاط کرو کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔ یہ طبقہ جہاں قربانی کی مخالفت کررہا ہے وہاں حج کی بھی مخالفت کرتا ہے۔
یہ کہتے ہیں کہ قربانی کرنے یا حج کرنے کے بجائے اس پیسے کو خیرات کر دو یا غریبوں کو دے دو۔ خیرات کرنا یا مستحقین کی مدد کرنا بہت بڑی نیکی ہے لیکن ایک فرض کام کو ادا کرنے سے روکنا شیطان کا کام ہے، رحمان کے بندے ایسا نہیں کرسکتے۔ حج ہر صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے جس کا ادا کرنا ہی ضروری ہے جب تک ادا نہیں ہوگا وہ آپ کے ذمے رہے گا۔ اس پر آپ کی گرفت ہوگی۔ البتہ جو نفلی حج پر جاتے ہیں، وہ حج پر جانے کے ساتھ ساتھ خیرات بھی کریں اور مستحقین کی مدد بھی کریں۔ اسی طرح قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے۔
عید الاضحی کے روز اولاد آدم کا کوئی عمل اﷲ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے رب کریم کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس لیے تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی وعید سمجھنا چاہیے کہ جو شخص وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نا آئے ۔نیز فرمایا کہ جو روپیہ عید کے دن قربانی پر خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں۔گویا قربانی ہر تونگر،آزاد مقیم مسلمان پر شرعاًواجب ہے۔ لیکن لبرلز ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ کسی اور ایجنڈے پر ہیں۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور سنت ابراہیمی پر بات آگے بڑھاتے ہیں۔
دس ذوالحجہ کو نماز عید کے بعد سنت ابراہیمی ادا کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے اوراللہ کی راہ میں جانور قربان کرنے کا یہ عمل بارہ ذوالحجہ کے روز نماز عصر تک جاری رہتا ہے۔ ہر عاقل، بالغ، صاحب استطاعت مسلمان پر قربانی کرنا واجب ہے اور قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کی قربانی کرنے کی استطاعت نہیں ہے تب بھی وہ کوشش کرے کہ قرض لے کر قربانی کرے کیونکہ قربانی اس کی تنگ دستی کو دور کرنے کا سبب بنے گی۔ اگرکوئی مسلمان سفر میں ہو یا فقیر وغریب ہو یا محتاج ہو اور قربانی کرے تو یہ مستحب ہے۔
جس طرح زکوٰۃ صاحب نصاب مسلمان پر الگ الگ لازم ہوتی ہے، اِسی طرح قربانی بھی ہر صاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر کے تمام افراد کی جانب سے ایک قربانی کر دی جائے تو کافی ہے، یہ خیال درست نہیں اور نہ ہی ایسے قربانی ہوتی ہے۔
ہر مال دَار مسلمان پر قربانی اس کے اپنے نفس اور ذَات پر وَاجب ہوتی ہے۔ اِس لیے پورے گھر، خاندان یا کنبے کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی بلکہ ہر صاحب نصاب پر الگ الگ قربانی لازم ہوگی، ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے، البتہ مْردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔ مردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے یا زندہ لوگوں کو ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرنا جائز ہے، اگر کسی آدمی نے قربانی کی نذر مانی یا فقیرنے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اْن پر قربانی واجب ہے۔
کسی شخص پر قربانی اْس وقت واجب ہوتی ہے، جب اس میں چھ شرائط پائی جائیں، اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو قربانی کا وجوب ساقط ہوجائے گا اور قربانی وَاجب نہ رہے گی۔
1۔ عاقل ہونا
2۔بالغ ہونا
3۔آزاد ہونا
4۔ مقیم ہونا
5۔ مسلمان ہونا
6۔صاحب نصاب ہونا
قربانی ہر اْس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو اور اس کے برابر ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے سات تولہ صرف سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اْس کی قیمت کے برابر نقد رَقم ہو یا ضرورَت سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باوَن تولہ چاندی کے برابر ہو۔ بعض لوگ نام بدل کر قربانی کرتے رہتے ہیں، باوجود یہ کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں، مثلاً: ایک سال شوہر کے نام سے، دوسرے سال بیوی کے نام سے، تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی بلکہ ہر صاحب نصاب میاں، بیوی پر علیحدہ علیحدہ قربانی ہوتی ہے۔
وہ صاحب استطاعت جن کو اللہ نے وسعت دی ہے، وہ حضور اکرم صلی اللہ وسلم اور خلفاء راشدین کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام کریں بلکہ ایک قربانی تمام امت کی جانب سے کرکے سنت پوری کریں۔ حضرت زید بن ارقما ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہ نے عرض کیا، ہمارے لیے اس میں کیا ثواب اور اجر ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، اگر اون والا جانور ہو (یعنی دنبہ ہو جس کے بال بہت ہوتے ہیں) اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ (مشکوۃ) عیدالاضحی کے دن قربانی کرنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے، اس دن قربانی کرنا ہمیں اللہ سے کتنا قریب لے جائے گا اور ہم پر سے کتنی مصیبتیں ٹل جائیں گی، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
The post سنت ابراہیمی اور لبرلز کا واویلا appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2204170/268