سیاسی صورتحال کا اثر معیشت کے جدلیاتی مضمرات پر صاف نظر آ رہا ہے، ماہرین اقتصادیات بہت خوش گمانی کا اظہار کرتے تھے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کی امید پیدا ہو چلی تھی لیکن اقتصادی بریک تھرو اور اشاریوں کے پر زور بیانیے کے باعث معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے حکومتی دعوؤں میں ایک غیر محسوس سا ٹھہراؤ آ گیا ہے جس کا اقتصادی ماہرین ذکر نہیں کرتے لیکن وزارت خزانہ کے ذرایع جستہ جستہ معیشت کی کارکردگی پر بیانات جاری کرتے ہیں لیکن ایک اشاریہ جو سارے اقتصادی بیانیہ پر حاوی ہے وہ افغان اور مجموعی سیاسی وا سٹرٹیجیکل ابھار پر ہے۔
ماہرین کے مطابق خطے کی سیاسی تیزی معاشی رفتار سے آگے نکل گئی ہے، حکومت کی توجہ مختلف سمتوں میں منقسم ہے، وہ مرکزیت جو ماہرین اقتصادیات کی پرامن دنوں میں ممکن تھی اب نہیں ہے، ڈیلٹا وائرس، مہنگائی اور غربت و بیروزگاری کے چیلنجز نے ان کا دائرہ پھیلا دیا ہے، حکمراں اپنی اقتصادی پچ پر کھیلنے کے لیے مناسب بیانیہ کی تلاش میں ہیں، مگر عوام کو ریلیف اور ٹریکل ڈاؤن کے جمہوری ثمرات دینے سے نجات ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومتی ناقدین اور اپوزیشن نے قرضے لینے کی ضرورت اور مجبوری پر احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے، عوامی حلقے ایک طرف معاشی استحکام، نچلے طبقات کو معاشی استقامت اور زندگی کی سہولتیں دینے کے دعوے کرتے ہیں لیکن حقائق اس سے مختلف نظر آتے ہیں، زرمبادلہ اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافے کے باوجود پاکستان نے مالی سال 2021 میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 34 فیصد اضافی بیرونی قرضہ لیا ۔ قرضوں کا بڑا حصہ غیر روایتی کثیرالجہتی اور دوطرفہ قرض دہندگان کے ذریعے محفوظ بنایا گیا۔
اس خلا کو چینی قرض حاصل کرکے پورا کیا گیا جو اصل بجٹ تخمینے کا حصہ نہیں تھا۔ علاوہ ازیں حکومت نے بین الاقوامی بانڈز کے ذریعے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کے بجٹ کے ہدف کے مقابلے میں 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کی رقم حاصل کی۔ ان میں 10سال کی میچوریٹی کے لیے ایک ارب یورو بانڈز، 30 سال کے50 ڈالر اور 2026 میں میچور ہونے والے پانچ سالہ بانڈ کے لیے ایک ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے بین الاقوامی بینکوں سے 4 ارب 70 کروڑ ڈالر کے تجارتی قرضے بھی بجٹ کے ہدف کے مقابلے میں حاصل کیے۔ تمام تجارتی قرضے بجٹ کی سپورٹ کے لیے حاصل کیے گئے۔
دوسری طرف پاکستان میں اشیائے خورونوش کا درآمدی بل گزشتہ مالی سال (2021) کے دوران سالانہ بنیاد پر 53.91 فیصد اضافے کے بعد 8 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک جا پہنچا۔ رپورٹ کے مطابق درآمدی بل میں اس اضافے کی وجہ مقامی زرعی پیداوار میں کمی کو پورا کرنے کے لیے چینی، گندم، پام آئل اور دالوں کی درآمد ہے۔ درآمدی بل میں اس اضافے نے تجارتی خسارے کو بھی بڑھایا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو بیرونی جانب کچھ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پاکستان ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں برس مجموعی درآمدی بل میں اشیائے خورونوش کا حصہ 14.79 فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو گزشتہ برس 12.17 فیصد تھا اور فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے ملک کا درآمدات پر بڑھتا ہوا انحصار ظاہر کرتا ہے۔ مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں حکومت نے متعدد اقدامات تجویز کیے جس میں فی ایکڑ پیداوار بڑھانے، پیداواری اشیا کے ضیاع کو کم کرنے اور غذائی اشیا کو محفوظ کرنے کے بڑے اسٹورز قائم کرنے کے لیے اربوں روپے مختص کرنا شامل ہے۔
گزشتہ مالی سال میں مجموعی درآمدی بل 26.60 فیصد اضافے کے بعد 56 ارب 40 کروڑ 5 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جب کہ اس سے پچھلے سال یہ 44 ارب 55 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تھا۔ مذکورہ عرصے کے دوران تمام اشیا کے درآمدی بل میں حجم اور مقدار کے لحاظ سے بھی اضافہ ہوا جو مقامی پیداوار میں کمی کی نشانی ہے، اشیائے خورونوش کی درآمد میں زیادہ حصہ گندم، چینی، خوردنی تیل، مصالحہ جات، چائے اور دالوں کا رہا۔ اس عرصے کے دوران خوردنی تیل کی درآمدی قیمت اور فی ویلیو ٹرم کے لحاظ سے نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
مالی سال 2021 میں پام آئل کی درآمد 44.91 فیصد بڑھ کر 2 ارب 66کروڑ 80 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی جو اس سے قبل ایک ارب 84 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھی، مقدار کے لحاظ سے پام آئل کی درآمد میں 7.64 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پام آئل کے بل میں اضافے کی وجہ بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے مقامی صارفین کے لیے گھی اور تیل مہنگا ہوا۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کے عرصے میں 98 کروڑ 33 لاکھ 26 ہزار ڈالر کی 36 لاکھ 12 ہزار ٹن گندم درآمد کی جب کہ اس سے پچھلے سال گندم کی درآمد صفر تھی۔
اسی طرح مالی سال 21-2020 کے دوران چینی کی درآمد کا حجم 2 لاکھ 81 ہزار 329 ٹن رہا جب کہ مالی سال 20-2019 میں 7 ہزار 609 ٹن چینی درآمد کی گئی تھی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران چائے کی درآمد میں 8.96 فیصد جب کہ مصالحہ جات کی درآمد میں 29.312 فیصد اضافہ ہوا۔ خشک میوہ جات، دودھ اور دیگر اشیائے خورونوش کا درآمدی بل سالانہ بنیادوں پر 34.16 فیصد اضافے کے بعد 2ارب 68کروڑ 60لاکھ ڈالر پہنچ گیا، جب کہ دالوں کا درآمدی بل 15.48 فیصد اضافے کے بعد 70 کروڑ 77 لاکھ 29 ہزار ڈالر تک جا پہنچا۔
عوام اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ حکومت نے ملک کو درآمدی ملک بن جانے کا شکوہ کیا تھا، یعنی وہ ملک جو بنیادی طور پر زرعی شناخت کا حامل تھا اسے اب گندم، چینی، دالوں سمیت اشیائے ضروریہ در آمد کرنا پڑی رہی ہیں، خود کفالت کا کوئی تصور واضح نہیں، فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ ہے، بعض ماہرین قحط سالی کے خطرہ کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں، بہرحال اقتصادی اور زرعی معیشت کی حقیقت پر قوم کو تاریکی میں نہ رکھا جائے، ترقی اور عوامی خوشحالی کی سچی تصویر قوم کے سامنے شفاف طریقے سے سامنے لانا مناسب ہے۔
حکومت سے اسٹرٹیجیکل بریک تھرو کی عوامی توقع اور اقتصادی چیلنجز سے نمٹنا یوں بھی ناگزیر ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے اقتصادی، معاشی اور سماجی حوالہ سے بہت غیر روایتی نعرے متعارف کرائے اور لوگوں کی توقعات ایک بڑی تبدیلی کے خواب کی تعبیر دیکھنے میں بدل گئیں، پی ٹی آئی کے ووٹر آج اسی تبدیلی کو یاد کرتے ہیں، لیکن انھیں معاشی، قلب ماہیت اور نئے پاکستان کی ابھی تک تعبیر نہیں ملی، غربت کے تسلسل سے عوام کی مایوسی میں اضافہ ہوا، غربت کے خاتمہ کا دعویٰ بھی پورا نہیں ہوا۔ آج بھی عوام اقتصادی اسٹریٹجی کے نتائج جلد دیکھنا چاہتی ہے۔
The post اقتصادی اسٹرٹیجی میں بریک تھرو ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2204410/268