وزیر اعظم عمران خان نے گوادر میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان کے ناراض عناصر سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے گزشتہ ہفتہ کابینہ کے اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ حکومت ناراض سیاسی عناصر سے مذاکرات کرے گی۔
تشدد میں ملوث اور غیر ملکی فنڈنگ لینے والے عناصر سے کوئی مذاکرات نہیں ہونگے۔ بلوچستان کے امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کو مذاکرات سے پہلے اعتماد کی فضا قائم کرنی چاہیے۔ 1947سے 1999 تک کی تاریخ کو فی الحال ایک طرف رکھ دیا جائے اور نئی صدی کے آغاز سے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو کچھ یوں حقائق ظاہر ہوتے ہیں کہ کوئٹہ اور دیگر شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نواز مری نامعلوم افراد کی فائرنگ میں جاں بحق ہوئے۔ پولیس قاتلوں کو تو گرفتار نہ کر پائی مگر مری قبیلہ کے سردار خیر بخش مری کو گرفتار کرلیا گیا۔ سردار خیر بخش مری بلوچستان میں ایک اہم سیاسی حیثیت رکھتے تھے اور بلوچ نوجوانوں میں اپنے انقلابی خیالات کی بناء پر مشہور تھے۔ پولیس خیر بخش مری کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکی اور انھیں رہا کرنا پڑا۔ سوئی اور کولھو کے علاقوں میں چپقلش اور بدنظمی کی خبریں آنے لگیں۔
اس وقت موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے والد جام یوسف صوبہ کے وزیر اعلیٰ تھے جو سیاسی سوجھ بوجھ اور بلوچوں کی پولیٹیکل ڈائنامکس کو خوب سمجھتے تھے مگر اس وقت کوئٹہ میں موجود صحافیوں نے کہنا شروع کیا تھا کہ جام یوسف کے اختیارات محدود ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ ان کے آبائی علاقہ سوئی سے نکلنے والی گیس اور تیل کی رائلٹی کے بارے میں تنازع پیدا ہوا مگر اسلام آباد کی بیوروکریسی نے بلوچستان کے معروضی حالات کا درست تجزیہ نہیں کیا اور نہ تاریخ سے کچھ سبق سیکھا۔ نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن تیز ہوا اور وہ پہاڑ پر چلے گئے اور ایک غار میں پناہ لی، ایک آپریشن میں جاں بحق ہوئے۔
نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت نے ان قوتوں کو اپنی منفی کھیل کھیلنے کا موقع دیا جو نوجوانوں کو ورغلا کر بندوق کے ذریعہ بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی ان چند بلوچ سرداروں میں سے ایک تھے جنہوں نے نوجوانی سے پاکستان کی حمایت کی تھی۔
سابق وزیر اعظم میر ظفر اﷲ جمالی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 16دسمبر 1971 کو تو بنگلہ دیش کے قیام کی خبر کوئٹہ پہنچی تھی تو نوجوانوں نے کوئٹہ کی مرکزی شاہراہ پر ایک جلوس نکالا تھا۔ اس جلوس میں شامل بعض عناصر آزاد بلوچستان کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اس جلوس میں میر غوث بخش بزنجو اور نواب اکبر بگٹی نے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقاریر میں اس بات پر زور دیا تھا کہ بلوچستان کا احساس محرومی پاکستان میں ہی دور ہوسکتا ہے۔2008 سے2013تک پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کا دور ان ہی ہنگاموں میں گزرا۔ 2013 کے انتخابات کے بعد پہلی دفعہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے نیشنل عوامی پارٹی کے قائد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
ان کے دور میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں تاریخی اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر مالک کا کہنا ہے کہ انھوں نے مسلح لشکروں کو منتشر کرنے پر خصوصی توجہ دی، یوں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ ڈاکٹر مالک نے وفاقی حکومت کی اجازت سے جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور ان میں سے کئی اہم رہنما وطن واپسی کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے ان ملاقاتوں کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان رہنماؤں میں سے بعض نے جو مطالبات کیے وہ تو ضلع کے ڈپٹی کمشنر پوری کردیتے مگر اچانک ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم کردی گئی، یوں سیاسی مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔
چین کے سی پیک منصوبہ پر عملدرآمد سے بلوچستان میں جدید سڑکوں کا جال بچھ گیا ہے۔ سی پیک کے نگراں جنرل عاصم باجوہ کا کہنا ہے کہ سی پیک کے تحت اکنامک زون قائم کیے جارہے ہیں جن میں چینی سرمایہ کار صنعتیں قائم کریں گے جس میں ہزاروں افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ بلوچ دانشور کہتے ہیں کہ 50ء کی دہائی میں گیس سوئی کے مقام سے نکلی۔
اس گیس کی پائپ لائن ایک طرف کراچی دوسری طرف پشاور تک پہنچ گئی۔ سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے بڑے چھوٹے شہروں میں گیس مہیا ہوئے عرصہ ہوگیا مگر آج بھی بلوچستان کے تمام شہروں میں گیس فراہم نہیں کی گئی۔ اسی طرح بلوچ ہزاروں سال سے بحیرہ عرب کے کنارے پر آباد ہیں۔ یہ بلوچ سمندر اور فضا میں رونما ہونے والی تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں اور ستاروں کی گردش سے پیدا ہونے والے موسمی اثرات کے بارے میں واقف ہوتے ہیں مگر بحیرہ عرب کی نگرانی کرنے والے اداروں میں بلوچوں کا داخلہ ممنوع ہے ، یہی صورتحال باقی شعبوں کی ہے۔ اسی طرح کراچی سے کوئٹہ جانے والی شاہراہ اب تک یک طرفہ ہے اور اس شاہراہ پر روزانہ حادثات ہونا معمول کی بات ہے ۔
ماضی میں بھی بلوچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وفاق نے مختلف نوعیت کے وعدے کیے۔ یہ وعدے ملک کے پہلے گورنر جنرل کے دور سے شروع ہوئے اور گزشتہ حکومت تک یہ وعدے دہرائے جاتے رہے۔ کوئٹہ میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ جام کمال کی حکومت اسی طرح بے اختیار ہے جس طرح ان کے والد جام یوسف کی تھی۔ اس بات کو تقویت وزیر اعلیٰ جام کمال کے کابینہ کے بجٹ کی تیاری سے لاعلمی کے بیان سے ملی ہے۔ اس بناء پر حکومت کے اعلانات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
وفاقی حکومت اگر ناراض عناصر سے واقعی مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے تو پہلے اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ صوبہ میں اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے پہلے قدم کے طور پر عام معافی کا اعلان ہونا چاہیے اور جو افراد سیاسی الزامات کے تحت بند ہیں ان کو رہا کرنا چاہیے۔
اسی طرح لاپتہ افراد کے معاملہ کو ہمیشہ کے لیے طے ہونا چاہیے۔ بیرونی ممالک میں مقیم بلوچوں کو وطن واپسی کے لیے ان کے تحفظ کی ضمانت کے لیے دستاویزی اقدامات ضروری ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین بگٹی کو وزیر اعظم کا معاون خصوصی مقرر کرنے کا فیصلہ اچھا ہے۔
حکومت کو ان منحرفین سے مذاکرات کے دوران بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے اور بلوچوں کے حقوق کے مستقل تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم پر بھی غور کرنا چاہیے۔ منحرف سیاسی عناصر کو بھی اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مسائل کا حل مذاکرات میں مضمر ہے اور کسی قسم کی پرتشدد تحریک مسائل حل نہیں کرسکتی۔ وہ عناصر جن کا انحصار غیر ممالک کی امداد پر ہے انھیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جب امریکا اپنے مفاد کے لیے افغانستان کی حکومت کو بیچ منجدھار میں چھوڑ سکتا ہے تو پھر ان کے مفادات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں یہ انتہا پسند عناصر تنہا رہ جائیں گے۔
The post بلوچستان ، اعتماد اور مذاکرات appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2202185/268