رام پور، ہندوستان کا کیا زرخیز خطہ ہے۔ اسے دریائے کوسی ، ناھل اور رام گنگا سیراب کرتے ہیں۔ جہاں گیہوں، مکئی، چاول، چنا اور نیشکرکی فصلیں لہلہاتی ہیں ، وہیں اس کی مردم خیزی کا بھی جواب نہیں۔
تقسیم سے پہلے یہاں سے کیسے کیسے عالم و فاضل ، شاعر و ادیب اٹھے جنھوں نے اردو اور فارسی ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ یہاں کا دارالعلوم مدرسہ عالیہ کا سارا انتظام و انصرام ریاست رام پور کے خزانے سے چلایا جاتا تھا۔ یہاں کی رضا لائبریری کتابوں اور مخطوطات کا ایک خزانہ ہے، آج بھی دنیا بھر کے عالم و فاضل افراد اپنے حوالے تلاش کرنے کے لیے رام پور جاتے ہیں۔
رام پور کا ایک شرمیلا، کم گو ادیب اور مترجم 91 برس کی عمر میں ہم سے رخصت ہوا۔ یہ تھے مسعود اشعر۔ پہلے بھی وہ کم کم ہی بولتے تھے لیکن انتظار حسین رخصت ہوئے تو انھوں نے بڑی اداسی سے کہا کہ ’’اب میں کیا کروں گا‘‘ محسوس یہ ہوا کہ جیسے انتظار حسین اور مسعود اشعر مل کر قلعہ روہتاس تعمیر کررہے تھے۔ وہ ان کے جانے کے بعد بجھ سے گئے تھے اور پھر آصف فرخی چلے گئے توکچھ اور ستم ہوا۔ بیمار ہوئے، پھر ایکسیڈنٹ ہوا جس کی وجہ سے صاحب فراش ہوئے۔
آخرکو صحت یاب ہوئے، چند کالم لکھے، شاید کچھ رہے سہے کام مکمل کیے ہوں اور اس کے بعد چپکے سے نکل لیے۔ اب شاید شمیم حنفی، انتظار حسین، آصف فرخی کی اور ان کی چوکڑی جمی ہو یا ہر طرف گھپ اندھیرا ہو اورکسی کوکچھ سوجھتا ہی نہ ہو۔ خیر وہاں جو بھی عالم ہو، وہ خود جانیں یا ان کا خدا جانے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے اخبار میںلکھنے کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ عامل صحافی بنے، کالم لکھے، مشہور و مقبول ہوئے۔
مقبول ہونے کا مطلب دربار سرکار میں نامقبول ہونا لازمی ہے۔ جانے کسی سرکار نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور جانے کس نے انھیں چند دوسرے اعزازات سے نوازا۔ جانے ان کی تعریف و توصیف کرنے والے کی کیسی مصیبت آئی ہوگی۔ ملتان ریڈیو اسٹیشن کا ذکرکرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ہمیں ملتان ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹرکی حیثیت سے جو مشہور و معروف شخصیتیں یاد آرہی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ نمایاں شخصیت الیاس عشقی کی تھی۔
اردو ، فارسی ، ہندی اور سندھی زبان کی عالم فاضل شخصیت۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ اجمیر یا جے پورکے رہنے والے اس شخص نے سندھی ادب میں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ ان دنوں کیسی کیسی شخصیتیں اس ریڈیو اسٹیشن سے منسلک تھیں ، آپ کو پڑھ کر حیرت ہوگی۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ اس وقت موسیقی کے پروگرام انچارج ہندوستانی فلموں کے بہت ہی ممتاز میوزک ڈائریکٹر خیام کے بھائی تھے۔ وہی خیام جنھوں نے ہندوستانی فلموں میں ایسی ایسی دھنیں دیں جو ہمیشہ قائم و دائم رہیں گی ، جو آج بھی یاد آجاتی ہیں تو سارے جسم میں جھرجھری سی آجاتی ہے۔
یادکیجیے فلم ’’ رضیہ سلطان‘‘ کو اور اس کے گیت ’’ اے دل ناداں ‘‘ کو۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ یہ دھن یاد آتی ہے تو ہم سے بیٹھا نہیں جاتا۔ ’’ پھر چھڑی بات پھولوں کی ، دکھائی دیے یوں ، ان آنکھوں کی مستی کے دیوانے ہزاروں ہیں، ’’شام غم کی قسم‘‘ جیسے گانے کسے بھولے ہوں گے۔ ان سب کی موسیقی بھی خیام نے ہی مرتب کی تھی۔ بہرحال ہمارا مقصد یہ بتانا ہے کہ خیام کے بھائی اے شکور ملتان ریڈیو پر موسیقی کے پروڈیوسر تھے۔‘‘
وہ سیاست پر ذراکم ہی لکھتے تھے حالانکہ روہیلہ پٹھان تھے ادب ، موسیقی اور ادیبوں سے دلچسپی تھی۔ اس لیے اد بدا کر ان ہی موضوعات کا انتخاب کرتے۔ ’’پدماوت‘‘ کی دھوم مچی تو اسے دیکھنے گئے تو لوٹ کر آئے تو لکھا ’’یہ کس کی پدماوت ہے؟‘‘ اگر آج ملک محمد جائسی زندہ ہوتے تو اپنی مثنوی ’’پدماوت‘‘ پر بنائی جانے والی فلم دیکھ کر ’’جوہر‘‘ ہوجاتے۔ معاف کیجیے جوہر تو راجپوت ناریاں اپنی راجپوتی آن بان شان پر ہوتی ہیں۔ ملک جائسی تو مسلمان تھے۔ انھوں نے ایک خیالی داستان رقم کی تھی۔ انھیں کیا معلوم ہوگا کہ ان کی مثنوی بالی ووڈ کی بلاک بسٹر فلموں کی طرح ہندوستان کی کھڑی توڑ فلم بن جائے گی۔
وہ بہت اچھے مترجم تھے۔ انھوں نے دوسروں سے بہت سے انگریزی ترجمے کروائے جس میں یہ ناچیز بھی شامل ہے۔ مجھ سے مشہور و معروف عرب دانشور ادیب فاطمہ مرنیسی کی کتاب ’’شہزاد گوز ویسٹ‘‘ کا ترجمہ ’’ شہر زاد مغرب میں ‘‘ کے عنوان سے کروایا۔ ان کے بہت سے افسانے رسالوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ کاش مبین مرزا کاوش کریں اور انھیں اکٹھا کریں۔
انھوں نے ایک مغربی ادارے کو ’’مشعل‘‘ کے نام سے قائم کیا اور اس سے بہت اعلیٰ کتابیں شایع کیں۔کلپنا پردھان نے بنگلہ کہانیاں منتخب کیں اور انھیں انگریزی میں ترجمہ کیا۔ مسعود اشعر کو بنگلہ کہانیاں بہت پسند آتی تھیں۔ انھوں نے ان کہانیوں کا ترجمہ ’’عورتیں اور دوسرے دھتکارے ہوئے لوگ‘‘ کے نام سے کیا۔ جسے ’’تخلیقات ‘‘نے لاہور سے شایع کیا۔ کلپنا پردھان اور مسعود اشعر نے بنگلہ افسانوں کے اس مجموعے کا تعارف کراتے ہوئے لکھا۔
’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کی یہ تحریک اصلاحی تحریک تھی۔ ان لوگوں نے عام آدمی اور دیہی عوام کی جدوجہد کو نظر انداز کیا۔ رام موہن رائے فرانسیسی انقلاب کی تو بہت تعریف کرتے تھے لیکن ان کی تحریروں میں ان بغاوتوں کا کہیں تذکرہ نہیں ہے جو ان کی زندگی میں بنگال یا ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں برپا ہوئیں۔ مثلاً نیل کاشت کرنے والے کسانوں کے مظاہروں یا ہڑتالوں 1830-1800-1778) اور 1848) کا ان کی یا ان کے فوراً بعد آنے والی تحریروں میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ صرف دین بندھو مترا کا ڈرامہ ’’نیل درپن‘‘ اس موضوع سے متعلق ہے۔ یہ ڈرامہ 1860 میں لکھا گیا۔
اٹھارہویں صدی کے نصف آخر اور انیسویں صدی کے شروع میں ہی بنگال میں کسانوں، بٹائی داروں ،جلاہوں اور آدی باسیوں کی چوبیس کے قریب بغاوتیں ہوئیں۔ اس زمانے کے ان روشن خیالوں نے انھیں نظر انداز کیا اور قدامت پسندوں نے ان سے نفرت کا اظہار کیا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ چینی اور روسی نشاۃ ثانیہ کے برعکس بنگالی نشاۃ ثانیہ شہروں اور متوسط طبقے تک محدود تھی۔
اب یہاں نہایت اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں بنگال کے اندر مسلمانوں کی آبادی نصف سے زیادہ تھی لیکن نشاۃ ثانیہ میں حصہ لینے والی تمام ممتاز شخصیتیں ہندو تھیں۔ ان کا مطمع نظر ہندو سماج کی اصلاح تھا۔ اگرچہ انیسویں صدی کے آخر میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں متوسط طبقے کے مسلمانوں کی موجودگی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے اصل دھارے میں ان کی شمولیت سے مسلمانوں کے اندر ذہنی، ثقافتی اور تخلیقی انقلاب آیا اور مسلمان مرد عورت کے رشتے پر بھی اس کا اثر ہوا لیکن مسلم متوسط طبقے سے باہر یہ اثر بہت کم پہنچا۔
بیسویں صدی کی قوم پرست تحریکوں اور انقلابی تصورات نے بنگالی ادب کو انیسویں صدی کے اصلاح پسندوں اور رابندر ناتھ ٹیگور کی پر امن انسان دوستی سے الگ کیا اور اسے عام انسانوں پر کیے جانے والے سیاسی، سماجی اور مذہبی رسم و رواج کے جبر کی طرف متوجہ کیا۔ مانک باندیو پادھیائے اس رجحان کے سرخیل مانے جاتے ہیں۔ ان کے بعد آنے والے بہت سے بنگالی ادیب عوامی تحریکوں میں براہ راست شامل رہے۔ مثلاً مہا سویتا دیوی ، نکسل باڑی تحریک میں کسی نہ کسی طرح خود شامل رہی ہیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو گزشتہ ایک سو سال کا بنگالی ادب متوسط طبقے کے اندر موجود روایتی جبرکی جہاں عکاسی کرتا ہے وہاں ایک طرف محروم طبقوں کے ساتھ اس طبقے کے تعلقات اور دوسری طرف مراعات یافتہ طبقوں کے ساتھ اس کے رشتوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ متوسط طبقہ اپنی ذہنی افتاد کے باعث اشرافیہ کا حصہ بھی ہوتا ہے اور معاشرہ کا نقاد بھی۔ یہ کیفیت جتنی بنگال میں نظر آتی ہے اتنی شاید ہی کہیں اور نظر آئے۔
گزشتہ پانچ دہائیوں میں معاشی ترقی رک جانے کے باعث اس طبقے میں بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور یہ مالی طورپر نیچے کی طرف گیا ہے۔ اس صورتحال نے اس کے اندر تضادات بھی پیدا کیے ہیں۔ متوسط طبقے کی اس کیفیت کو سمجھ کر بنگالی ادب کی پوری طرح تحسین کرتے ہیں۔ زیر نظر انتخاب جو بنگالی ادب کا ایک مختصر سا نمونہ ہے ، امید و بیم دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔‘
بنگال کی سرزمین اور بنگلہ ادب مسعود اشعرکو بہت محبوب تھا۔ مشرقی بنگال میں جو کچھ ہوا، مسعود اشعر کا دل اس پر خون ہوتا تھا ، لیکن لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ صرف بنگلہ افسانے ترجمہ کرسکتے تھے۔ ہوسکتا ہے جاتے جاتے وہ رب جلیل کے حضور وہ پٹیشن بھی لے گئے ہوں جس پر ہم سب نے عرصہ پہلے سے دستخط کر رکھے ہیں ، لیکن ہم کیا اور ہماری پٹیشن کیا۔
The post مسعود اشعر، شاید پٹیشن ساتھ لے گئے ہوں appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2200608/268