زمانہ قدیم سے ایک رواج چلا آ رہا ہے کہ کوئی گڈریا، چرواہا بکرے بکریوں کے ریوڑ لیے جنگل میں ان کو چراتا ہے۔ کہیں اس ریوڑ میں بھیڑ اور دنبے بھی شامل ہوتے ہیں اورکہیں گائے اور بھینسیں بھی ان میں شامل ہو جاتی ہیں۔ جنگل ہو یا کوئی چراگاہ ہو یا ندی کنارے کوئی وسیع رقبہ ہو یا چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر کہیں جھاڑیاں کہیں چھوٹے چھوٹے درخت پتوں سے بھرے ہوئے۔
جن کو دیکھتے ہی بکرے ان کی طرف جا کر اپنی اگلی دونوں ٹانگوں کے بل کھڑے ہوکر اپنا قد اونچا کر لیتے ہیں اور مزے مزے سے پتے کھا رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح سال بھر کی محنت کے بعد عام دنوں میں ذبح کرنے کے لیے یا پھر خصوصاً قربانی کے لیے سنت ابراہیمی کی ادائیگی کی خاطر جانور پل کر تیار ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں کسان، ہاری اپنے کھیت کھلیانوں میں گھاس بھی اگاتا ہے۔ دیگر چارے بھی کاشت کرتا ہے اور یوں قربانی کے لیے جانور پال پوس کر ان کی صحت و تندرستی کا بھرپور خیال کرتا ہے۔
دن رات کی محنت شاقہ کے بعد یوں عیدالاضحی کے ایام سے مہینہ یا چند ہفتہ قبل قریبی شہر، قصبے یا دور دراز کے شہروں کی منڈیوں تک اپنا مال مویشی لے کر پہنچ جاتا ہے۔ کراچی کی مویشی منڈی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے جس کا آغاز ایام بقر عید سے 41 یوم قبل ہی کردیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ قربانی کے بعد اسلام نے گوشت کی تقسیم کا وہ بہترین فارمولا دیا جس کے باعث ہر شخص کو کھانے کے لیے گوشت میسر آجاتا ہے۔
بہرحال کراچی کی مویشی منڈی میں اس سال 7 لاکھ سے زائد قربانی کے جانور لائے گئے تھے۔ اسی طرح لاہور، ملتان، شاہ پور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، سرگودھا، سکھر، حیدرآباد اور ملک بھر میں چھوٹی بڑی ہزاروں منڈیاں قائم ہو جاتی ہیں۔
اگر ہم سنت ابراہیمی کے معاشی پہلوکا جائزہ لیں تو یہ تقسیم دولت اور آمدنی میں اضافے اور غربت میں کمی لانے کے ساتھ معاشی جمود کو توڑ کر معاشی پہیے کو تیز کرنے کا بابرکت اسلامی نظام ہے۔ پاکستان کی ہی مثال لے لیں جہاں کورونا وبا کے باعث لاکھوں افراد بے روزگار ہیں ، ان کے لیے تقریباً 6 ہفتوں کا عارضی ملازمت کا کاروبار کا ذریعہ پیدا ہوا۔ ملک بھر کے ہزاروں ٹرک والے قربانی کے جانور منڈی تک پہنچانے کا کام انجام دے رہے ہوتے ہیں۔
قربانی کے جانور کا سودا ہونے کے بعد ان کو گھر تک پہنچانے کے لیے سوزوکی والے کو، چھوٹے ٹرک والے کو منہ مانگے دام ادا کرنے سے ان کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مختلف منڈیوں میں جو مال مویشی لا کر فروخت کیا جاتا ہے ان کی دیکھ بھال کے لیے، ان کو چارہ کھلانے کے لیے، ان کے لیے پانی اور خوراک کی فراہمی کے لیے لاکھوں کی تعداد میں بچے سے لے کر بوڑھے افراد تک کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو عارضی طور پر ملازمت مل جاتی ہے۔
اس سلسلے میں کتنے ہی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح بھاگ دوڑ کرنے اور سخت محنت مشقت کے کام کے باعث محنت کی عادت پڑ گئی اور محنت کے کام میں شرمانے کی عادت بھی ختم ہو گئی لہٰذا اب ہر محنت کا کام جوکہ جائز ہو کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یقینا جب عزم اور ارادہ ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ان دنوں چارے کی عارضی دکانیں، اسٹال کھول لیے جاتے ہیں۔ گائے، بیل اور بکروں کو سجانے کے لیے سامان کی فروخت بڑھ جاتی ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے جس کے مثبت رخ کی طرف نظر دوڑائیں تو وہ بہت ہی خوشگوار ہے۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح سے بچے گائے بیل بکروں کو سجاتے ہیں۔ ان کو چارہ کھلاتے ہیں۔ ان کو لے کر گھماتے پھراتے ہیں اور بکروں کو بھی خوب اٹھکھیلیاں سوجھتی ہیں، وہ بھی ان کے ساتھ خوش نظر آتے ہیں۔
اب اس اہم ترین معاشی پہلو کی طرف نظر ڈالتے ہیں جس کے باعث لاکھوں افراد کو روزگار میسر آتا ہے۔ ملک کے ہزاروں تاجروں کی تجارت خوب چمکتی ہے۔ صنعتکاروں کا بینک بیلنس بڑھتا ہے۔ وہ ہے کھالوں کا جمع کرنا اس کا کاروبار پھر ان کھالوں کو لیدر انڈسٹری میں بڑے پیمانے پر بطور خام مال استعمال کرنا۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں پون کروڑ کے لگ بھگ گائے، بیل، بکرے، بھیڑ، اونٹ وغیرہ ذبح کیے جاتے ہیں جن سے مدرسے والے کہیں فلاحی ادارے والے اور دیگر کھال وصول کرکے فروخت کرتے ہیں۔
2015 تک گائے کی کھال کے 4 ہزار روپے سے زائد بھی وصول ہو رہے تھے اور ایک بکرے کی کھال کی قیمت ڈیڑھ ہزار تک بھی تھی۔ لیکن بعد میں عالمی چمڑا منڈی میں کھالوں کی قیمت کئی گنا کردی گئی۔ لہٰذا گزشتہ برس تو ایک گائے کی کھال 7 یا 8 سو اور بکرے کی 3 سے 4 سو میں فروخت ہوئی تھی۔ قربانی کے ایام میں ملک کے بڑے شہروں میں موسمی قصائیوں کا راج قائم ہوجاتا ہے، جو بڑے جانور کا 15 تا 20 ہزار روپے معاوضہ لیتے ہیں اور بکرے کا دو سے تین ہزار معاوضہ لے رہے تھے۔
اس طرح کھالوں اور درآمد شدہ کھالوں کے استعمال سے پاکستان کی لیدر انڈسٹری کھربوں روپے کی چمڑے کی مصنوعات برآمد کرتی ہے۔ 2020-21 کے دوران لیدر مصنوعات کی برآمدات کی مالیت 90ارب 15 کروڑ 80 لاکھ روپے بنتی ہے۔ جب کہ مالی سال 2019-20کے دوران تقریباً 75 ارب روپے کی آمدن حاصل ہوئی تھی اس طرح 20 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔
مالی سال 2020-21 کے دوران ایک کروڑ 66 لاکھ فٹ ویئر(جوڑے) کی برآمد سے21 ارب 12کروڑ روپے کی آمدن حاصل ہوئی تھی، جب کہ مالی سال 2019-20 کے دوران ایک کروڑ 36 لاکھ جوڑے فٹ ویئر کی برآمد سے 19 ارب 84 کروڑ روپے کی آمدن ہوئی تھی۔ اس طرح بلحاظ مقدار 22 فیصد اضافہ ہوا اور بلحاظ مالیت ساڑھے 6 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان بڑے پیمانے پر لیدر ایکسپورٹ کرکے سالانہ تقریبا 30 ارب روپے کا زرمبادلہ حاصل کرلیتا ہے۔
اس طرح اسلام کے اس عظیم حکم پر عمل پیرا ہونے کے باعث 60 تا 70 لاکھ کھالیں ٹیزز والوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ پھر ملک کے طول وعرض میں سیکڑوں کارخانوں میں لاکھوں مزدور کام کرتے ہیں، لیدر کی مختلف اقسام کی مصنوعات تیار کرکے کھربوں روپے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں سے افراد جب ان مال مویشیوں کو فروخت کے لیے شہروں کی جانب لاتے ہیں تو شہری دل کھول کر اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کے جانور کی خریداری کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس طرح کھیت سے منڈی تک پھر لیدر مصنوعات سے لے کر عالمی منڈی تک لے کر جانے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کا حصول اور بابرکت اس لیے کہ لاکھوں افراد کا روزگار جڑ جاتا ہے۔
The post سنت ابراہیمی کا بابرکت معاشی پہلو appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2205165/268