ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی ملتان کی کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ اس ہڑتال میں مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں اور کئی مزدور قتل ہوگئے۔،حالانکہ مارشل لاء لگ چکا تھا لیکن مزدوروں پر گولی چلانے اور مزدوروں کی ہلاکت کی خبر اتنی بڑی تھی کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتاتھا۔
ہماری تربیت میاں افتخار الدین کے اخبارات اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم پر ہوئی تھی۔ ہم نے مارشل لاء کی پابندیوں کے باوجود مزدوروں پر گولی چلانے اور کئی مزدوروں کی موت کی خبر اخبار میں چھاپ دی۔ صبح کو ایک بڑے فوجی افسر کے سامنے ہماری پیشی ہوگئی۔
وہاںیہ سوال نہیں کیا گیا کہ یہ خبر کیوں چھاپی ہے بلکہ یہ سوال کیا گیا کہ’’ خبر کس رپورٹر نے دی تھی‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے سوال کرنے کی جرات کی کہ ’’ کیا یہ خبر غلط ہے؟‘‘ جواب ملا ’’یہ خبر چھاپ کر تمہارے اخبار نے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے‘‘ پھر حکم ہوا’’ اس رپورٹر کا نام بتاؤجس نے یہ خبر دی ہے‘‘ میرے لیے یہ بڑا امتحان تھا۔
میں جانتا تھا کہ خبر کس رپورٹر نے دی ہے لیکن کیا اپنے رپورٹر کو ایک سچی خبر دینے پر مارشل لاء کی بھینٹ چڑھادوں۔ یہ سوال میرے سامنے تھا۔ میں نے کہا کہ ’’میں نیوز ایڈیٹر سے معلوم کر کے اس رپورٹر کا نام آپ کو بتاؤں گا‘‘ میں کہاں رپورٹر کا نام بتانے والا تھا لیکن سارا عذاب میرے گلے پڑ گیا۔ چند ہفتے بعد لاہور سے ایک صاحب کو لا کر میرے سر پر بٹھا دیا گیا۔ پھر حکم ہوا تمہیں لاہور ڈی پورٹ کردیا گیا ہے۔ یہ پیراگراف معروف ادیب اور صحافی مسعود اشعر کے پی یف یو جے کی آزادئ صحافت کی جدوجہد کے ستر سال پر شایع ہونے والی کتاب میں ان کے مضمون سے ماخوذ ہے۔
مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان تھا، وہ 10فروری 1931 کو متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش میں ضلع رام پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ رام پور میں حاصل کی، انھوں نے 1945 میں الہ آ باد بورڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1957 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی پھر پاکستان آگئے۔ مسعود اشعر نے 50ء کی دہائی میں صحافت کا شعبہ اختیار کیا اور اس زمانہ کے مختلف اخبارات روزنامہ احسان، روزنامہ زمیندار اور روزنامہ عصر میں کام کیا، انھوں نے1954 میں روزنامہ امروز میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت معروف ترقی پسند ادیب احمد ندیم قاسمی روزنامہ امروز کے ایڈیٹر تھے۔
مسعود اشعر بتاتے تھے کہ ابتدائی دور میں وہ فلمی صفحہ سے منسلک ہوئے۔ وہ روزنامہ پاکستان ٹائمز کے آئی اے رحمن اور ایک اور صحافی علی سفیان آفاقی کے ساتھ رپورٹنگ کے لیے لاہور کے فلمی اسٹوڈیو جایا کرتے تھے۔ غالبا ان لوگوں نے اردو صحافت میں فلمی رپورٹنگ کا آغاز کیا تھا۔ 1958 میں روزنامہ امزور کا ایک ایڈیشن ملتان سے شایع ہونے لگا اور مسعود اشعر اس کے پہلے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں کو ترتیب دیتے ہوئے بتایا کہ ایوب خان ، یحییٰ خان اور بھٹو دور سیاست اور صحافت کے حوالہ سے ہنگامہ خیز دور ہے۔
اس وقت سرکاری خبررساں ایجنسی اے پی پی کی انتظامیہ نے اپنے ایک صحافی اور پی ایف یو جے کے متحرک کارکن افضل خان کو بیورو چیف بنا کر ملتان بھیج دیا تھا، یوں مسعود اشعر اور افضل خان کی دوستی کے خوب چرچے ہوئے۔ مسعود اشعرنے بتایا تھا کہ سابق صدرجنرل ضیاء الحق نے ایک طویل عرصہ ملتان میں گزارا۔ انھوں نے جنرل ضیاء الحق کے متعلق کچھ واقعات یوں بیان کیے کہ ایک فوجی افسر میرے دفتر آئے اور اتنا تعارف بریگیڈیئر ضیاء الحق کی حیثیت سے کرایا اور استدعا کی کہ قرآنی آیات پر مشتمل ایک قاعدہ ان کے پاس ہے، وہ اس کو شایع کرانا چاہتے ہیں۔
مسعود اشعر نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ کچھ عرصہ بعد بریگیڈیئر ضیاء الحق پھر مسعود اشعرکے دفتر تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ کنٹونمنٹ کے علاقہ میں سیرت نبوی پر جلسہ کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں، کسی عالم دین کو اس جلسہ میں مدعو کرنے کے لیے نام تجویز کیے۔ مسعود اشعراور افضل خان نے مفتی محمود جو اس زمانہ میں ملتان کے مدرسہ میں مہتمم تھے کا نام تجویز کیا، یوں مفتی محمود نے سیرت نبوی کے جلسہ میں تقریر کی۔ پھر یہ سلسلہ سال ہا سال چلا۔ مسعود اشعر اور افضل خان ضیاء الحق کو کسی نہ کسی عالم سے متعارف کراتے رہے۔
ضیاء الحق فوج کے سربراہ مقرر ہوئے اور اسلام آباد چلے گئے۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر منہاج برنا کو جو پاکستان ٹائمز کراچی کے بیورو چیف تھے ملازمت سے برطرف کردیا۔ پی ایف یو جے نے پورے ملک میں احتجاج کی کال دی۔
اس دوران جنرل ضیاء الحق نے ملک بھر کے سینئر صحافیوں کو اسلام آباد مدعو کیا۔ مسعود اشعراور افضل خان بھی اسلام آباد بلائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس پروگرام میں تمام ایڈیٹروں سے مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی مگر جب جنرل ضیاء الحق مسعود اشعراور افضل خان کے پاس پہنچے اور یوں گزرگئے جیسے کبھی آشنا ہی نہ تھے۔
مسعود اشعرکالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں پر فائرنگ کی خبر کی اشاعت پر ایک دفعہ عتاب کا شکار ہوئے مگر انھوں نے خبر کی پاسداری اور ترقی پسند سوچ کی ترویج کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد تین ماہ میں انتخابات کرانے اور اقتدار عوامی نمایندوں کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا مگر پھر انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی اوراخبارات پر پری سنسرشپ عائد کردی گئی۔
مسعود اشعرنے جبر کی حکومت کے خلاف مزاحمت کو اپنے افسانوں کا خیال بنایا۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے جن میں پیپلز پارٹی ، تحریک استقلال، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ، جمعیت علماء اسلام اور قومی محاذ آزادی وغیرہ شامل تھیں نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) کے نام سے اتحاد بنایا اور 1983 میں 1973 کے آئین کی بحالی کے لیے تحریک شروع کی۔ اندرون سندھ عوام نے اس تحریک میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ لاہور کے صحافیوں، دانشوروں اور ادیبوں نے سندھ کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور 1973 کے آئین کی بحالی پر مشتمل منشورِ مطالبات جاری کیا۔
اس مطالبہ پر دستخط کرنے والوں میں مسعود اشعربھی شامل تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے مسعود اشعرسمیت این پی ٹی میں ملازمت کرنے والے 12صحافیوں کو برطرف کیا، یہ صحافی 1989 میں بحال ہوئے۔ مسعود اشعرایڈیٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے توانھوں نے کتابوں کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور ان کے ادارہ نے اردو میں مختلف موضوعات پر کتابیں شایع کیں۔ مسعود اشعران افراد میں شامل تھے جو نوجوانی میں ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے اور زندگی کی آخری سانس تک اپنے نظریات کی پاسداری کرتے رہے۔
مسعود اشعرنے پی ایف یو جے کی کتاب میں جو مضمون لکھا تھا اس کا آخری جملہ یہ تھا ’’اب ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے جو آج میڈیا کے ساتھ ہورہا ہے کیا یہ اس وقت ہوسکتا تھا جب صحافیوں کے پاس اجتماعی ٹریڈ یونین کی طاقت موجود تھی‘‘ آئی اے رحمن کے بعد مسعود اشعر بھی رخصت ہوگئے۔ یہ اشعار ان کے چاہنے والوں کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا
The post اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2201706/268