عورتوں کے نامناسب لباس کا دفاع کرنے والوں کی تلملاہٹ کے پیچھے ایک تو فیشن انڈسٹری کی کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری ہے جسکی وجہ سے انڈسٹری کے کارپردازوں نے اپنے کارندوں کو یہ ٹاسک سونپ رکھا ہے کہ جونہی کوئی عورتوں کے مختصر یا بیہودہ لباس پر تنقید کرے، فوراً تابڑ توڑ حملے کرکے اُسے خاموش کردو یا مدافعانہ رویّہ اختیار کرنے پر مجبور کردو، کہیں کوئی مذہبی یا مشرقی اقدار کے حوالے دے کر عورتوں کے لیے ڈیسینٹ یا باحیا لباس کی بات کرے تو اس پر Victim Blammingکا الزام لگا کر ایسا دھاوا بولو کہ آیندہ کوئی لباس کو زیرِ بحث لانے کی جرأت ہی نہ کرے۔
اس جارحانہ پالیسی سے وہ ایسا ’’سازگار ماحول‘‘ پیدا کرنا چاہتے ہیںکہ جس میں فیشن انڈسٹری کا کاروبار بھی پھلتا پھولتا رہے اور اُن عالمی قوّتوں کے ایجنڈے کی تکمیل بھی ہوتی رہے جو ہمارے حیا کے قلعے کو تباہ و برباد کردینا چاہتی ہیں اور اُس پر پوری قوّت سے حملہ آور ہوچکی ہیں۔
خواتین کے لباس پر مردوں کے ردِّعمل کے بارے میں ہمارے اپنے ملک کے کئی قابلِ اعتماد اداروں کی سروے رپورٹس آچکی ہیں جن کے مطابق نوّے فیصد مردوں کا کہنا ہے کہ نامناسب لباس میں عورتوں کو دیکھ کر ہمارے جنسی جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں۔
ستّر فیصد مردوں نے اقرار کیا کہ ’’تعلیمی اداروں اور دفتروں میں دوپٹّوں سے بے نیاز لڑکیوں، عورتوں کو دیکھ کر ہمارے جنسی جذبات بے قابو ہونے لگتے ہیں اور پھر اُن پر ہم آوازے بھی کستے ہیں اور سیٹیاں بھی بجاتے ہیں۔ باحجاب خواتین کو دیکھ کر کبھی جذبات نہیں مچلتے بلکہ دل پر ان کا رعب طاری ہوجاتا ہے۔ گھریلو ملازموں کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کے بارے میں تفتیشی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اسّی فیصد کیسوں میں نوجوان ملازم گھر کی خواتین کو نیم عریاں دیکھ کر درندے بن جاتے ہیں اور زیادتی کرکے انھیں قتل بھی کردیتے ہیں‘‘۔
یہاں سِینہ ڈھانپنے والی قرآنی احکامات کی حکمت واضح ہوجاتی ہے، انسانوں کے خالق سے زیادہ انسانی جذبوں اور جبلّتوں سے کون باخبر ہوسکتا ہے، ربِّ ذوالجلال حکم دیتے ہیں۔
’’اے نبی مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیںبجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘(سورہ نور )
خالق نے عورت کو جسمانی حسن اور کشش عطا کی ہے مگر اس کی عزّت اور عصمت کے تحفّظ کا موثّر انتظام بھی کیا ہے۔ سب سے پہلے مردوں کی آنکھوں پر پہرہ لگا دیا ہے کہ وہ عورت کے جسم کو نگاہ بھر کرنہیں دیکھیں گے۔
پھر عورت پر بھی لازم ہے کہ وہ نگاہیں بچا کر رکھے اور ایسا لباس پہنے جس سے اس کا جسم نمایاں نہ ہو، اسے ایسا لباس پہننے سے منع کردیا گیا ہے جو دیکھنے والے مردوں کے جنسی جذبات میں ہیجان اور طوفان برپا کر دے۔ ہمارے لبرل دوستوں نے صرفVictim Blamingکی اصطلاح سن رکھی ہے، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں نئی تھیوری آچکی ہے کہ “Victim is not always innocent” (Victimہمیشہ بے قصور نہیں ہوتا ) ۔
جاپان اور کئی دیگرترقّی یافتہ ملکوں میں جس طرح پراپرٹی کے تحفّظ کے لیے حفاظتی تدابیر بتائی جاتی ہیں، اسی طرح اب خواتین کوrapists سے بچاؤ کے لیے جو گائیڈ لائینز دی جاتی ہیں ان میںProvocative dress سے گریز بھی شامل ہے۔ چین میں نوجوان لڑکیوں کو یہ کہاوت سنائی جاتی ہے کہ ’’ گوشت ڈھانپ کر رکھیں ورنہ اس پر منہ مارنے کے لیے کُتّے اور بلّے پہنچ جائیں گے ‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنسی زیادتی کی بہت سی وجوہات ہیں، کئی Psyco pathsبھی اس جرم میں ملوّث ہوتے ہیں۔ ایسے نفسیاتی مریضوں میں مدرسے کا مولوی بھی ہوسکتا ہے اور ہالی وڈ کا معروف فلم ڈائریکٹر بھی، جس نے Entertainmentکے تماتر اسباب میسّرہونے کے باوجود سو سے زیادہ عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنادیا تھا۔
مگرعورتوں کے بیہودہ لباس کو بالکل بری الذمّہ قرار دینا ذہنی بددیانتی ہے۔ نامناسب لباس جنسی زیادتی کی واحد وجہ نہیں مگر یہ ایک بڑا Contributory factorضرور ہے، جس طرح کسی ایسے بینک میں جس کا الارم سسٹم خراب ہو اور گارڈ بھی سو رہا ہو، ڈکیتی کی واردات ہونے کے بعد اس کے مینیجر کو مؤثر حفاظتی انتظامات نہ کرنے پر سخت سرزنش کی جاتی ہے، اسی طرح نامناسب لباس والی عورت اگر جنسی حملے کا نشانہ بنتی ہے تو مقدّمے اور سزا کا حقدار تو مرد ہی ہوگا مگر عورت کو بھی تنبیہ ضرور کی جائے گی۔ بے حیا لباس کے علاوہ فحش فلمیں اور نیٹ پردستیابPorn matarialبھی جنسی تشدّد کا ایک بڑا سبب ہے۔
دو سال قبل میں لاہور میں ایک ایسے دوست کے بیٹے کی شادی میں شریک ہوا، جس کی والدہ1947 میں آگ اور خون کے کئی دریا عبور کرکے اور اپنے خاوند، تین بیٹوں، دو بیٹیوں ، تین بھائیوں اور دو بہنوں کو قربان کر کے اپنے خوابوں کی جنّت پاکستان میں داخل ہوئی تھیں۔ شادی میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے نامناسب ، revealing اور نیم عریاں لباس دیکھ کر میرے دوست کی والدہ زاروقطار رونے لگیں، کچھ عورتوں نے آگے بڑھ کر کہا، ’’خالہ جان آپ اس خوشی کے موقع پر کیوں رورہی ہیں‘‘؟ تو معمّر اور مُدبّر خاتون )جو اس خاندان کی سربراہ بھی ہیں ( بولیں،’’ہم نے اپنے جگر کے ٹکڑے ایسے پاکستان کے لیے نہیں کٹوائے تھے جہاں لڑکیاں ایسے بیہودہ اور فحش لباس پہنیں گی اور بے حیائی میں غیر مسلموں سے بھی آگے نکل جائیں گی‘‘۔
دوسری خواتین کے ساتھ میرا دوست بھی والدہ صاحبہ کو چپ کرانے کی کوشش کرتا رہامگر نہ اُن کے آنسو تھمتے تھے نہ ان کے دل کی پکار مدہم ہوتی تھی ، وہ مسلسل یہی کہتی رہیں،’’اگر نئے ملک میں یہی خرافات ہونی تھیں تو ہم نے اپنا خاندان کیوں برباد کرایا، ہم تو ہندوستان میں بڑے آسودہ حال تھے، ہم شہر کی سب سے بڑی حویلی میں رہتے تھے، ہمارے بزنس اور زمینیں تھیں ، ہندو اور سکھ ہمارے ملازم اور مزارعے تھے، ہم وہیں رہ جاتے ہم تو سمجھتے تھے کہ ہم نیا ملک اس لیے بنارہے ہیں کہ وہاں اللہ اور رسولؐ کا نظام چلے گا، وہاںعورتوں کا رہن سہن اسلام کے مطابق ہوگا، مگر یہاں تو رحمان کے بجائے شیطان کا نظام چلایا جارہا ہے۔ پھر میں نے سہاگ کیوں لٹوایا، اپنے جگر کے ٹکڑے کیوںکٹوائے، اپنی جان سے پیاری بیٹیاں اور بہنیں کیوں مروادیں‘‘ ؟ مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ان کے سوالوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
بانیانِ پاکستان علّامہ اقبالؒ،قائدِاعظم ؒ اور لیاقت علی خان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ تھے مگر وہ بھی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک، مسلم تہذیب و تمدّن کی بقاء اور حفاظت کے لیے حاصل کرنا چاہتے تھے،اگر وہ آکرآج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیںکہ جس پاکستان کا وہ خواب دیکھ رہے تھے اور جس پاکستان کے لیے لاکھوں بہنوںاور بیٹیوں کی عزّتیں قربان ہوئیں اُس پاکستان سے ہم جیسے ذہنی غلاموں نے مسلم تہذیب کا جنازہ نکال دیا ہے، وہاں احساسِ کمتری کا شکار مسلمان بیٹیاں وہی لباس پہنتی ہیں جو یورپ میں غیر مسلم عورتیں پہنتی ہیں اور اُنکے پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر وہی بیہودہ پروگرام چلتے ہیں جو دہلی اور بمبئی میں چلتے ہیںتو وہ یہ صدمہ کبھی برداشت نہ کرسکیں گے۔
ہماری بیٹیوں اور بہنوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عریانی ماڈرن ازم نہیں ہے۔ کم لباسی اور بے حیائی جدید دور کی ایجادات نہیں ہیں،یہ تو صدیوں پرانے دورِ جاہلیّت کا کلچر ہے، حضرت محمّدﷺ کے عظیم انقلاب سے پہلے عورتیں ، میلوں ٹھیلوں اورPublic Gatherings میں عریاں پھرتی تھیں حتّیٰ کہ خانہ کعبہ کا طواف بے لباس ہوکر کرتی تھیں۔ رسولِؐ خدا نے انسانوں کو جب ایک نئی اور بہترین تہذیب کا تحفہ دیا توعورتوں کو حیاء کے جوہر سے آشنا کیا۔ خالقِ کائنات نے انسانوں کے حقوق، رہن سہن، شادی، طلاق، وراثت، خوراک اور لباس کے بارے میں واضح احکامات دیے ہیں۔ اگر ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور اسی حیثیّت سے اپنی شناخت کرانا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ اور رسولؐ کے احکامات میں سےPick and Choose کا اختیار نہیں ہے۔
اگر ہم کسی ادارے کے ملازم ہیں تو کیا مالک یا ایم ڈی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں آپکے 40%احکام مانوں گا/گی مگر باقی میں میری مرضی ہوگی، ایسا کہیں گے تو فوراً نوکری سے نکال دیے جائیں گے، دنیاوی سیٹھ یا ایم ڈی کے تو ہم صرف employee ہوتے ہیں، ربّ ِ ذوالجلال کے ہم ملازم یا ورکر نہیںبلکہ غلام ہیں۔ وہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں حج کرلوںگا مگر سود نہیں چھوڑوںگا، یا میں زکوٰۃ دے دوںگی اور میلاد کروالوںگی مگر لباس اپنی مرضی کا پہنوںگی اور اس معاملے میں اللہ اور رسولؐ کی ہدایات نہیں مانوںگی ۔
(جاری ہے)
The post عورتوں کا لباس اور جنسی تشدد (دوسری قسط) appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2198728/268