اصل میں بڑی طاقتوں کی اجارہ داری نے اس خوبصورت دنیا کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی طاقتوں کی اس اجارہ داری کو کیسے ختم کیا جائے۔ دنیا میں اربوں انسان رہتے ہیں لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ ان آٹھ ارب انسانوں کو مختلف حوالوں سے اس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں۔ اس چال نے انسانوں کی طاقت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے۔
زبان ، قومیت، رنگ نسل مذہب و ملت کے حوالے سے ان معصوم انسانوں کی اجتماعی طاقت کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دیا ہے دراصل مسئلہ اعتقادات کا ہے جسے اشرافیہ نے استعمال کرکے عوام کی طاقت کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اس چال کا جواب ہمارے ادیب دانشور، مفکر شاعر بہتر طور پر ڈھونڈ سکتے ہیں۔ 1948 میں تقسیم ہند کے بعد عوام میں جو نفرتیں پھیلائی گئیں، وہ بہت گہری تھیں لیکن ادیبوں شاعروں مفکروں نے اسے کامیابی سے ختم کردیا ، بلکہ اس خطے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
کشمیر ایک بدقسمت خطہ ہے جو 1948 سے انتہائی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے کاش ہمارے رہنما انسانوں کے بہتر مستقبل کے لیے بھی سوچنے کی زحمت کریں۔ دنیا کورونا کی زد میں ہے اب تک لاکھوں انسان اس کی زد میں آچکے ہیں۔ لاکھوں متاثر ہیں کیا اس قیامت نے انسان کو حیوانیت سے باز رہنے میں کوئی مدد نہیں کی۔ امریکا نے لگ بھگ بیس برس افغانستان پر قبضہ جمائے رکھنے کے بعد اب افغانستان سے انخلا کیا ہے لیکن کیا اس کی ریشہ دوانیاں ختم ہوسکتی ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا تعلق اس خطے کے مستقبل سے ہے۔
پاکستان اپنی کمزور پوزیشن کی وجہ سے خطے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکتا جس کا ناجائز فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے۔ یہ فائدہ وقتی تو ہو سکتا ہے لیکن مستقبل بہرحال کشمیری عوام کے ہاتھوں میں ہی ہوگا جس کا احساس غالباً بھارتی رہنماؤں کو نہیں۔ دنیا انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے اسے حیوانوں کے رہنے کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔ اس صورت حال کو اب ختم ہونا چاہیے۔ تاکہ خدا کی زمین پر اس کے بندے سکون اور آشتی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد متعلقہ طاقتیں اپنی سازشوں میں مصروف ہیں چونکہ ماضی میں بھی بھارت کا افغانستان سے بہت گہرا تعلق رہا ہے اس لیے امکان اس بات کا ہے کہ بھارت ایک بار پھر افغانستان میں مداخلت کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان پاکستان سے مل کر خطے کے مستقبل کے لیے کوئی ایسی منصوبہ بندی کرتے کہ اس خطے میں جنگ کے امکانات ختم ہو جاتے اور ہندوستان اور پاکستان سمیت علاقے میں امن و امان کی فضا مستحکم ہوتی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالے سے بھارت کی جانب سے کوئی مثبت کوشش نظر نہیں آ رہی ہے اس کے برخلاف ماضی کی سیاست ہی بروئے کار نظر آرہی ہے۔
اس خطے کے عمومی مفادات کے پیش نظر یہ صورتحال انتہائی مایوس کن نظر آرہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں لیکن بھارت کا رویہ انتہائی مایوس کن ہے جس کا اثر نہ صرف پاکستان پر بلکہ پورے خطے پر انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے حال ہی میں کشمیر کی خودمختاری کے حوالے سے بھارت نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو نہ صرف کشمیر کے مستقبل پر اثرانداز ہوں گے بلکہ پورا خطہ متاثر ہو گا۔
ہم نے افغانستان کے حالات سے اپنے کالم کی ابتدا کی تھی افغآنستان اس وقت ایک سویا ہوا آتش فشاں ہے اگر یہ پھٹ پڑا تو ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آسکتی ہے اور ناقابل تصور جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے طالبان افغانستان کی اصل طاقت ہیں انھیں جب تک ناانصافی کے خیال سے آزاد نہیں کیا جاسکتا اور امریکا کی بالادستی کے دور کے مظالم سے ذہنی طور پر آزاد نہیں کیا جاسکتا اس وقت تک ان کی جبلت میں تشدد بھرا رہے گا۔
ان حقائق کو سمجھنے والوں کو جب تک طالبان سے تعلق پیدا کرنے نہیں دیا جاتا طالبان کو بدلنا ممکن نہ سہی مشکل ضرور رہے گا۔ انسان کی تاریخ میں بڑے بڑے تشدد پسند انسان گزرے ہیں جو زندہ انسانوں کی کھال کھینچ لیتے تھے وہ آج نہیں ہیں ان کا نام ہے جو برائی کی علامت بنا ہوا ہے، تاریخ کے صفحات پر پڑے ان داغوں کو مٹانا ہو تو آج کے تشدد پسند عناصر کو انسانیت سے روشناس کرانا ہوگا اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ کام ادیب شاعر مفکر اور دانشور ہی کرسکتے ہیں۔
The post عالمِ خیال appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2199209/268