معاملہ بڑا گھمبیر بلکہ سنجیدہ ترین، رنجیدہ ترین اور پیچیدہ ترین ہوتا جارہا ہے روز کوئی نہ کوئی تشویشناک،حیرت ناک بلکہ ناکوں ناک خبر ایسی آجاتی ہے کہ ہماری کوئی چیزیا اثاثہ یا میراثہ گم ہوگیا ہے، کھوگیا ہے اور عدم پتہ ہوگیا ہے۔
روز معمورہ دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا
اگرایسا ہی چلتا رہا تو ایک دن ایسا بھی آجائے گا کہ ہمارا ککھ بھی نہیں رہے گا۔پہلے تو معمولی سی عام ریزگاری گم ہورہی تھی، پیسہ گیا، آنہ گیا، دونی چونی اٹھنی گم ہوگئی پھر روپیہ بھی صرف کاغذوں میں(rs) رہ گیا ایک روپیہ، دو روپے پانچ روپے دس روپے کے نوٹ غائب ہوگئے اور اب( rs 100) کے سرپر بھی خطرہ منڈلارہا ہے ہوش وحواس تاب وتواں داغ جاچکے پہلے آدھا پاکستان چلا گیا۔اس کے بعد باقی پاکستان بھی پرانا ہوگیا۔ وہ تواچھا ہے کہ ہمارے’’شبھ چنتک‘‘اوسر ’’کارساز‘‘’’نیا پاکستان‘‘ لے آئے لیکن نیا پاکستان بھی
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھاکے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیے مسکراکے ہاتھ
دیکھتے ہی دیکھتے نیا پاکستان بھی نہ رہا اور ریاست مدینہ آگئی۔اور اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ کب تک رہے گی۔یا کب کیا نام اختیار کرے گی۔ اسی طرح’’کرپشن‘‘جو ہم نے جی جان سے پالی ہوئی سنبھالی ہوئی اور استعمالی ہوئی تھی جسے خون جگر پلا پلا کر جوان کیا تھا عین عالم شباب میں نہ جانے کس کے ساتھ کہاں فرار ہوگئی، اخبار میں بس اتنی سی خبر آئی تھی کہ ملک میں ’’کرپشن‘‘کانام ونشان نہیں رہا۔اور تو اور سارے چور ڈاکو اور لٹیرے بھی ساتھ ہی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔سوچا چلو جب اتنی چیزوں کے بغیر جی رہے ہیں تو ان کے بغیر بھی باقی زندگی بتالیں گے
کرتے ہیں کررہے ہیں گزارا ترے بغیر
یادوں سے لے لیا ہے سہارا ترے بغیر
اور اب یہ خبر بھی آگئی کہ ’’غربت‘‘بھی عدم پتہ یا فرار ہوگئی جو ہمارا زندگی بھر کا اثاثہ تھی۔جو نہ جانے کتنی حکومتوں اور لیڈروں کی محنت شاقہ کے طفیل ہمیں حاصل ہوئی تھی۔بلکہ اکثر سنائی دیتا تھا کہ ہماری ’’غربت‘‘دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے، اس کی لکیر اوپر ہی اوپر اٹھ رہی تھی بلکہ توقع تھی کہ کچھ ہی دنوں میں ہر طرف غربت ہی غربت ملین ٹری ہوجائے گی لیکن اب اچانک ایک وزیرصاحب نے یہ جانکاہ خبر سنائی ہے کہ غربت عدم پتہ یا فرار یا گم ہوگئی ہے اور ثبوت یہ دیا ہے کہ ہرکسی کے پاس کار ہے بنگلہ ہے موبائل ہے فریج پے پیسہ ہے ایسا ہے ویسا ہے غریبی کہاں ہے ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔حکومت لگی ہوئی ہے لیکن غربت کا کوئی سراغ نہیں مل رہاہے
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضادیکھ
غربت کا کہیں بھی نہیں ملتا ہے پتا دیکھ
معاملہ بڑا تشویشناک ہے۔کہیں ایک جیل کے ایک ’’قیدی‘‘کا سا معاملہ تو نہیں چل رہاہے وہ قیدی بیمار ہوگیا تو ڈاکٹروں نے اس کے سارے دانت نکال لیے پھر بیمار ہوا تو اپینڈیکس نکال لیا گیا،کچھ دنوں ایک آنکھ ایک گردہ بھی نکلوا دیا گیا، پھر ایک ہاتھ کاٹ ڈالا گیا پھر ایک ٹانگ۔ اور اب پھر وہ قیدی اسپتال میں داخل تھا۔جیل کے داروغہ نے اپنے اسسٹنٹ سے کہا۔مجھے تو شبہ سا ہورہا ہے کہ یہ قیدی کہیں ’’قسطوں‘‘میں جیل سے فرار تو نہیں ہورہا ہے۔
کچھ ایسا ہی شبہ ہمیں بھی ہورہاہے پہلی والی چیزوں پر ہم نہ چونکے تھے نہ گھبرائے تھے بلکہ خوش ہوئے تھے کہ خس کم جہاں پاک۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔لیکن غربت؟غربت تو ہماراواحد اثاثہ ومیراثہ ہے، اندھی آنکھوں کا آخری آنسو، کڑک مرغی کا آخری انڈا اور ڈوبنے والے جہاز کا آخری تختہ بلکہ ’’کیٹ ونسلیٹ‘‘ ہے، یہ بھی گئی تو ہمارے پاس اور کیا رہ جائے گا۔
تم نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دل میں اک سناٹا سینے میں خلا رہ جائے گا
وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ ہم غربت کے اب اتنے عادی ہوگئے ہیں اتنے مل گئے ہیں اتنے یک جہاں دو قالب ہوگئے ہیں کہ۔تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ۔
غم دیا ہے تو رہے اس کا تسلسل قائم
مری غربت میں کسی شے کی تو بہتات رہے
خدا کرے یہ افواہ غلط ہو اور ’’غربت‘‘۔کرپشن اور چوروں کی طرح مستقل فرار نہ ہوئی ہو۔اور آٹے چینی وغیرہ کی طرح کسی کے ’’گھر‘‘میں کچھ وقت کے لیے ’’پناہ گزین‘‘ہوگئی ہو اور ایک دن پھر آخر ہمیں نہال اور مالا مال کردے
شاید مجھے نکال کے ’’کچھ کھا‘‘رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگئی ہوں میں
The post اور اب غربت بھی فرار appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2205177/268