پاکستان تحریک انصاف کا یہ دور پاکستان کے لیے سیاسی اور معاشی دونوں اعتبار سے مشکل ترین دور ہے‘ کاروباری طبقہ ہو‘ سرکاری اور نجی شعبے میں ملازمین ہوں یا دیہاڑی دار مزدور سب حکمرانوں سے نالاں ہیں۔
حکومت نے ہر شعبے میں ایسی تباہ کن کارکردگی کے ریکارڈ قائم کیے جن کی مثالیں ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتیں۔ کچھ لوگ ان سے سرزد ہونے والی فاش غلطیوں کو نالائقی قرار دیتے ہیں اور کچھ ناتجربہ کاری۔ ہر محاذ پر سرزد ہونے والی کوتاہیوں کو برداشت کیا جاسکتا ہے، حکومت کے ساتھ رعایت برتنے کے لیے انھیں کوئی نام بھی دیا جاسکتا ہے، لیکن بعض محاذ ایسے ہوتے ہیں جو رعایت کے زمرے میں نہیں آتے۔
پاکستان تحریک انصاف جس دن سے اقتدار میں آئی ہے، اس دن سے ایک تسلسل کے ساتھ ایسے بیانات اور اقدامات کیے جا رہے ہیں جس سے ملک کا مذہبی طبقہ حکومت سے نالاں ہیں۔ کبھی حج فارم سے ختم نبوت کا حلف نامہ نکال دیا جاتا ہے، کبھی مقدس شخصیات کے متعلق غیر ذمے دارانہ بات سامنے آ جاتی ہے، کبھی قومی اسمبلی کے فلور پر قبلہ اول کو یہودیوں کو حوالے کرنے کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
کبھی مدارس و مساجد کے حوالے سے قوانین تبدیل کرکے ان کی آزادی و خودمختاری ختم کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو کبھی علماء کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی جاتی ہے۔ اب کی بار تو سینیٹ میں گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔
اس بل کا مطالعہ کیا جائے تو کوئی عام پاکستانی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ بل پاکستان کے آئین کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی ایسا قانون پاس نہیں ہوسکتا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔
بہرحال اس بل کی منظوری میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتیں باہمی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر تھیں۔ وہ اینکرز اور صحافی جن کی آنکھوں سے کوئی ایشو بچنے نہیں پاتا وہ بھی اتنے بڑے ایشو پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔
بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ بل خواتین، بچوں، بزرگوں اورکمزور افراد کے خلاف گھریلو تشدد کی ممانعت اور ان کے تحفظ سے متعلق ہے۔ گھریلو تشدد کرنے والے کو 3 سال تک قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید 3سال سزا ہوگی۔ عدالت میں درخواست آنے کے 7 روز کے اندر سماعت ہوگی اور فیصلہ 9روز میں ہوجائے گا۔
گھریلو تشدد کے روک تھام کے بل کے اہم نکات ملاحظہ کیجیے۔
1۔والدین کا اپنے بچوں کی پرائیویسی یا آزادی میں حائل ہونا جرم ہوگا۔
2۔ اولاد کے بارے ناگوار بات کرنا یا شک کا اظہار کرنا بھی جرم ہوگا۔
3۔اس بل میں معاشی تشدد کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی کسی بھی قسم کے اختلاف، نافرمانی، کسی بھی وجہ سے بچے کا خرچہ بند نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا تو یہ جرم ہوگا اور اس پر سزا ہوگی۔
4۔ جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی ہراساں کرنے کی اصطلاحات متعارف کرائی گئی ہیں، یعنی کسی بھی بات کو ہراسمنٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔
5۔ خاوند کا دوسری شادی کا کہنا، خواہش کا اظہار کرنا جرم ہوگا، اسے گھریلو تشدد قرار دیا گیاہے۔
6۔ بیوی کو طلاق کی دھمکی دینا بھی جرم اور قابل گرفت سزا ہوگی۔ اسی طرح کوئی غصے والی بات، اونچی آواز میں بولنا، کوئی بھی ایسا جملہ جو جذباتی، نفسیاتی یا زبانی اذیت کا باعث بنے وہ جرم ہوگا۔ اسلام نے بچوں کے حقوق پر بڑا زور دیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی تعلیمات بیان کی ہیں، اس بل میں جو کچھ تجویز کیا گیا ہے وہ اسلام کی ان تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
اسی طرح اسلام نے خواتین کے حقوق و فرائض کا پورا نظام دیا ہے، عورت چاہے ماں ہو، بیٹی ہو یا بیوی، اس کی معاشرے میں عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے، اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس حق عصمت کی حفاظت کرے۔ اسی سے خاندانی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں خواتین کے لیے مفصل احکام بیان فرمائے گئے بلکہ ایک مکمل سورۃ کا نام ’’نساء‘‘ رکھا گیا۔ جس میں حقوق نسواں کے بارے احکامات کا ذکر کیا گیا۔ یہ بل ان احکامات کے خلاف ہے۔
حقوق نسواں کے نام پربنایا گیا یہ بل 2016 میں شہباز شریف کی پنجاب حکومت کی جانب سے پاس ہونے والے حقوق نسواں بل کا جدید ایڈیشن ہے، اس بل کے پیچھے بھی مغرب کے ایجنڈے اور ٹکڑوں پر پلنے والی وہی این جی اوز ملیں گی، اس بل کے خلاف بھی مولانا فضل الرحمن جیسے علماء ہی میدان عمل میں نظر آرہے ہیں، اس بل کا مقدر بھی ردی کی ٹوکری تھا اس بل کا مقدر بھی ردی کی ٹوکری ہوگا۔
جب اس بل کے خلاف بھی علماء کھڑے ہوگئے اور ان کے پیچھے عوام الناس نے اس بل کے خلاف سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا تو مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان حرکت میں آئے اور اس بل کو روکنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ دیا۔ اس خط کا بنیادی نکتہ بھی یہی تھا کہ یہ بل قرآن و سنت کے خلاف ہے اور کوئی ایسا بل قانون نہیں بن سکتا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔
یہاں میں جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے سب سے پہلے سینیٹ میں اس بل کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کے بعد جے یو آئی کے رہنما مولانا عطا الرحمان بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ انھوں نے کہا کہ بل کو انسانی حقوق کمیٹی میں بھیجا گیا جس میں جے یو آئی کا کوئی رکن نہیں تھا۔ بل کا قرآن اور سنت سے تعلق ہے اس بل کو مذہبی امور کی کمیٹی میں جانا چاہیے تھا۔ اس وقت حکومت ایک بار پھر دفاعی پوزیشن پر کھڑی ہے اور امید ہے چند روز تک یہ بل واپس لے لیا جائے گا۔اگر یہ بل آئین کا حصہ بن جاتا تو نسل نو آزادی کے نام پر بے راہ روی کا شکار ہو جاتی۔ پاکستان کا سوشل اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا۔
میں آخری بات وزیر اعظم عمران خان سے کرنا چاہوں گا۔
خدارا اپنا ویژن کھل کر ایک بار بتا دیں، مگر اللہ کے واسطے اس پر یوٹرن نہ لیں، آخر آپ پاکستان کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں، آپ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں لیکن جونہی چین، ترکی یا کسی اور ملک کے وزٹ پر جاتے ہیں تو آپ کو ان ملکوں کا نظام پسند آجاتا ہے، اسی طرح کبھی آپ حجاب کی بات کرتے ہیں، خواتین کے نیم برہنہ لباس پر تنقید کرتے اور ساتھ ہی آپ کے وزراء گھریلو تشدد کے خاتمے کے نام پر متنازع بل پاس کرا لیتے ہیں۔
اب تو سچ مچ ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ کہیں آپ سے متعلق مولانا فضل الرحمان جو باتیں کرتے آرہے ہیں وہ سچ تو نہیں؟ اگر اس بار بھی ایکشن نہ لیا گیا تو پھر سمجھ لیں دال میں کچھ کالا نہیں، بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔
The post ساری دال ہی کالی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2199210/268