گزشتہ دنوںوفاقی وزیر پرویزخٹک نے مہنگائی کے حوالے سے ایک فلسفیانہ منطق پیش کی۔ ان کے اس بیان سے مجھے انقلابی دانشورکامریڈ ایماگولڈ مان کا قول یاد آیا کہ ’’جنھیں نہ سمجھنے کے لیے تنخواہیں ملتی ہیں انھیں کیونکر سمجھ میں آئے گا ؟‘‘
ملکی ترقی کے بارے میں شاید وزیر موصوف کے ذہن میں 10 فیصد لوگوں کی ترقی ہے اور شاید 100منزلہ عمارات، لینڈکروزر، موٹرویز، ماڈل اسکولز، میٹرو بسیں، ایٹم بم اور میزائل کی ترقی ہے۔ بھوک، افلاس، غربت، ناخواندگی، بے گھری ، لاعلاجی اور مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ ان مسائل سے ملک ترقی کرے گا۔
شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں بھوک سے روزانہ کتنے آدمی جان سے جاتے ہیں۔ بروقت اور معقول علاج کی عدم سہولت سے کتنے لوگ روز مر رہے ہوتے ہیں۔ مہنگائی کی وبا سے پاکستان کی بیشتر آبادی نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سرکاری وفاقی ادارہ شماریات نے 2021 جون کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ ان کے اپنے ادارے کیا کہتے ہیں۔ جون 2020 کے مقابلے میں 2021 میں اشیا ضرورت کی قیمتوں کی جائزہ رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق کھانے پینے کی بیشتر اہم اشیا کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا رجحان رہا۔ رپورٹ کے مطابق شہری آبادیوں میں گندم کی قیمت 19 فیصد، آٹے کی قیمت میں 13.43فیصد اضافہ ہوا ، گندم کی تیار مصنوعات کی قیمت 25 فیصد بڑھ گئی۔ بیکری مصنوعات اور کنفیکشنری آئٹمز کی قیمت 17.39 فیصد بڑھ گئی، گوشت کی قیمت میں 16.66 فیصد اضافہ ہوا۔
تازہ دودھ کی قیمت 14فی صد بڑھ گئی۔ دودھ کی مصنوعات 15 فیصد اور انڈے 32 فیصد ، مکھن 14 فیصد مہنگا ہوا، خوردنی تیل کی قیمت 22 فیصد بڑھ گئی۔ جون 2021 میں افراط زر کی شرح 9.7 فیصد رہی۔ نئے مالی سال 2021-22 کا بجٹ نفاذ ہوتے ہی مہنگائی کی شرح میں 9.5 فیصد اضافہ ہوگیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کو عوام خوب سمجھتے ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ وزرا حضرات مہنگائی کو مہنگائی نہیں سمجھ رہے ہیں، یہ ترقی کے اعشاریے سمجھ رہے ہیں۔
یہ برملا بیان دے رہے ہیں کہ ہم نے مہنگائی پر کنٹرول پا لیا۔ جی ڈی پی میں اضافہ ہوا، افراط زر میں کمی آئی۔ جب کہ ان کے سب دعوے ان کے بیانات کے برعکس ہیں۔ اب کہہ رہے ہیں کہ آیندہ ہم پھر جب جیت کر اقتدار میں آئیں گے تو مزید عوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ معروف دانشور پیتروپوتکن کا کہنا ہے کہ ’’اگر انتخابات سے مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے۔‘‘
مہنگائی بڑھنے سے ملک کی ترقی ہوتی ہے کے بیان کو اگر مان لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن وزرا کی آمدنی لاکھوں روپے میں ہو ان کے لیے دال 250 روپے کلو یا آٹا 75 روپے کلو کوئی معنی نہیں رکھتا مگر ایک مزدور جس کی تنخواہ حکومت کی جانب سے اعلان شدہ 25 ہزار روپے جو انھیں نہیں ملتی، مشکل سے 10 سے 15 ہزار روپے ملتی ہے ان کے لیے دال 250 روپے کلو اور آٹا 75 روپے کلو انتہائی مہنگا ہے۔ وہ دال ایک کلو نہیں خرید سکتے، ایک پاؤ ہی خرید سکتے ہیں۔
چونکہ مزدور کسان جو اپنی ضروریات زندگی کی اشیا بھرپور طور پر نہیں خرید سکتے اس لیے وہ نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ وزرا حضرات یہ نظریات کہاں سے درآمد کرتے ہیں کہ افراط زر میں کمی آ رہی ہے ، جی ڈی پی میں اضافہ ہوگیا، اب مشکلات میں کمی آئے گی، مہنگائی بڑھنے سے ملک ترقی کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ اگر افراط زر میں کمی آگئی ہے تو پھر کم رقوم دے کر زیادہ سودا ملنا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ زیادہ رقوم دے کر کم سودا مل رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انسان کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ اسے اشیا خوردنی سستے داموں ملیں۔ جب کوئی بیرونی وائرس حملہ آور ہوتو اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں، اور شکست دے کر اپنے آپ کو توانا رکھیں۔ اس سے علاج کی ضرورت بھی کم پڑے گی اور دوا کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ صحت مندی سے علاج کے پیسوں کی بچت ہوگی اور بیماریوں سے بھی نجات ملے گی۔ یہ ہے اصل ترقی۔
لگتا ہے کہ حکمرانوں کے ذہن میں چھپی ہوئی بات یہ ہوگی کہ ترقی کا مطلب ان کی اپنی ترقی۔ اس نظام یعنی سرمایہ داری کے خلاف عوام یعنی پیداواری قوتوں کو متحد ہوکر لڑنا ہے اور اس نظام کو ختم کرکے اس کا متبادل تشکیل دینا ہے ۔ اب وہ دن دور نہیں کہ یہ نظام نیست و نابود ہوگا اور ایک ایسا غیر طبقاتی نظام ہوگا جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔
The post ملک کیسے ترقی کرے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2199214/268