بچپن میں گرمیوں کی چھٹیاں آتے ہی ملا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق ہماری دوڑ ہمارے آبائی شہروں دادو اور حیدرآباد تک لگتی تھی۔ کبھی خوشی سے” کبھی منہ بسورتے ہوئے، چار و ناچار ہمیں وہاں ڈیڑھ دو مہینے گزارنے پڑتے۔ گرمی، ہم عمر دوستوں کا نہ ہونا اور رنگین ٹی وی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہم بھائی بہنوں کا ووٹ ہمیشہ ننھیال یعنی حیدرآباد کو پڑتا، لیکن ابو کا فیصلہ ویٹو پاور ہوتا اور ہم ددھیال پہنچ جاتے۔
لمبا سا صحن، محرابوں والا برآمدہ، بانسوں اور چھپر سے بنی اونچی چھت، آدھا کچا آدھا پکا حویلی نما مکان، جسے مسکن ہی کہا جائے تو صحیح ہے کہ وہاں ایک سکون کا ڈیرہ تھا۔ دروازوں کے اندر دروازے اور چار پانچ گھروں کے اندر گزرگاہ ہوتی تھی۔ ہر گھر میں عورتوں کو کوئی ہنر ضرور آتا تھا۔ کوئی ’’ٹُک‘‘ یعنی ایپلیک کا کام کر رہی ہے، کوئی شیشے کی کڑھائی، کوئی پاپڑ بنا رہی ہے، تو کوئی دھاگے کی چیزیں جیسے کہ ازاربند اور پراندے بنا رہی ہے۔ وہ نسل ہی اور تھی۔
صبح ناشتہ کرنے بیٹھتے تو بڑی پھوپھو ’’چاٹی کی لسی‘‘ اور تازہ مکھن بنانے کےلیے مورچہ سنبھال لیتیں۔ ایک چھوٹی سی مٹی کی مٹکی یا گڑوی، لکڑی کی بنی اینڈوی پر رکھی جاتی، اوپر متھانی یا مدھانی کو رسی سے اس طرح باندھا جاتا کہ دونوں سروں کو باری باری کھینچ کر لسی بلوئی جاسکے۔ تازہ دیسی انڈوں کی خوشبو، خالص دودھ کی چائے، گھر کی پسی گندم کے پراٹھوں کی خوشبو اور اس لسی بلونے کی موسیقیت کا کوئی نعم البدل ہی نہیں۔ آہستہ آہستہ وہ سب چیزیں خواب و خیال ہوتی گئیں۔ یورپ میں ناشتہ کرلیا لیکن ناشتے کا وہ ذائقہ جو شاید اپنائیت اور معصومیت کا مرہونِ منت تھا، زبان پر دوبارہ نہیں آیا۔
قصہ کوتاہ یہ تو ایک خطے کی ثقافت تھی جو ہم نے دیکھی۔ جو ذرا ہوش سنبھالا تو کاشی کے برتن دیکھے نفاست اور ذوقِ جمال کا شاہکار، ٹُک کی بنتی رلیاں دیکھیں، رنگوں سے بنا وہ طلسم کہ کیا کہنے۔ ہاتھ کی بنی چنگیریں (روٹی رکھنے کی چھابڑیاں) دیکھیں، سندھی ٹوپی اور اجرک کی نفیس بنت دیکھی، حیدرآباد میں کانچ سے بنتے وہ شاہکار دیکھے جو لڑکیوں کی کلائیوں میں آجاتے تو گویا وجود زن کی رنگینی کو چار چاند لگ جاتے۔
کبھی والدہ کے ساتھ جامع کلاتھ مارکیٹ جانا ہوتا تو بلوچی کڑھائیوں کے بنے فراک جیسے دل موہ لیتے۔ کاریگر کے ہنر اور ذوق و جمال کی داد دینے کو جی چاہتا۔ ذرا اور وقت گزرا تو ملتانی برتنوں پر نگاہ رک گئی۔ جیسے مٹی کے بنے گل و گلزار ہوں، ایسے برتن اور آرائش کے گلدان کہ جنہیں گلوں کی حاجت ہی نہیں۔ چنری، سوسی اور لنگی کا کپڑا، گویا طبیعت باغ و بہار ہوجائے رنگوں کی قوس قزح دیکھ کر۔ سیر و تفریح کی غرض سے سوات اور کشمیر جانا ہوا تو اون سے بنی شالیں، کپڑے اور ٹوپیاں ایک الگ ہی دنیا میں لے گئیں۔ خود سے سوال کیا کہ کہیں ایسی ثقافت دیکھی دنیا میں؟ اتنی متنوع، اتنی رنگا رنگ، ایسے آنکھوں کو بھلی لگنے والی اور اتنی سستی۔
غور کیجیے ہم پاکستانیوں کو سب سے زیادہ سستی اپنی ہی ثقافت پڑتی ہے تو ہم نے کبھی اس کی ترویج و ترقی کے بارے میں کیوں نہ سوچا؟ یہ سب چیزیں بنانے والے اکثر مزدور آج بھی انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے ہنر اور ہنرمندوں کے مرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہیں شہری سطح پر وہ رسائی اور مواقع حاصل نہیں ہوسکے جن سے وہ اپنی معیشت سنبھالتے۔ اکثریت کی نئی نسلوں نے آبائی پیشوں کو ترک کردیا کیونکہ انہیں محسوس ہوا کہ یہ ایک سودمند کام نہیں ہے۔
یہ خوبصورت چیزیں بنانے والے تمام ہاتھ آج بھی زخمی اور نحیف ہیں، کیونکہ ہم نے انہیں مضبوط کرنے کےلیے سرکاری سطح پر مربوط اقدامات نہیں کیے۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں کی لغت میں ثقافت اور ہنرمندی کا باب اس لیے نہیں ہے کہ اس کو بنانے کےلیے سرمایہ دار سے لوہا یا سریا نہیں لینا پڑتا۔
ان ہنرمندوں کو دو چیزوں نے ہر جگہ شدید نقصان پہنچایا، ایک تو مڈل مین یعنی آڑھتی یا دلال نے، جس نے قیمتیں ایسی مقرر کی کہ ہنرمند کو فائدہ نہ ہوا، اور براہ راست بازار یا خریدار تک رسائی نہ ہوئی۔ اپنے ہنر اور دستکاری کا معاوضہ نہ ملااور نہ ہی پذیرائی ملی۔ دوسرا کم علمی اور تعلیم سے دوری نے، کہ اپنے حق کےلیے خود کچھ کر بھی نہ سکے۔
تعلیم ان ہنرمندوں کو ابھی بھی ایک بین الاقوامی تاجر بناسکتی ہے۔ خصوصاً اس دور میں جب برقی مواصلات نے پوری دنیا کو ملا دیا ہے اور چشم زدن میں آپ دنیا کے کسی بھی خطے سے کوئی شے خرید سکتے ہیں۔ اگر سرکاری سطح پر ایسی تمام دیہی منڈیوں کی نشاندھی کی جائے، پھر وہاں کے ہنرمندوں کو مفت تعلیم اور کمپیوٹر استعمال کرنے کی تربیت دی جائے، اور ان کی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرکے کم سے کم قیمت کےلیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے تو ایسی تمام دستکاری کی صنعتیں ایک منافع بخش بین الاقوامی تجارت میں تبدیل کی جاسکتی ہیں۔ جس طرح ترکی کے برتن خریدنے دنیا وہاں جاتی ہے، اگر ہمارے دستکاروں کو وہی سہولیات مہیا کی جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ رِلّی اور ملتانی برتن ہماری معیشت کا ایک فائدہ مند جز بن جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post ہماری دستکاریاں، رنگوں کا طلسم appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2201117/464