11News.pk | Online News Network
11News.pk | Online News Network

افغان امن عمل اور پاکستان کو درپیش چیلنج

پاکستان نے پوری خلوص نیت سے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے، لیکن پاکستان اس امن عمل کا سہولت کار ہے، ضامن نہیں۔ امن عمل کا انحصار مختلف افغان دھڑوں پر ہے جنھوں نے آپس میں بات کر کے خود اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ انھوں نے افغانستان کو آگے کیسے لے کر جانا ہے،ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے ترجمان اور شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا ہے ،جب کہ بہت سے سوال بھی پیدا ہوئے ہیں ، جن کا جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور آنے والے چند دنوں میں ہونے جا رہا ہے کیا وہ غیر متوقع ہے؟یا ہمیں اس ساری صورتحال کا ادراک ہے۔

پاکستان نے افغانستان میں سیاسی حکومت کی تشکیل میں ٹھوس کردار ادا کیا اور اس کے ساتھ افغان طالبان اور عالمی برادری کے ذمے دار ممالک کے درمیان تعمیری مذاکرات کی راہ ہموار کی۔ یہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں ہی کا ثمر ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پایا۔ اگلے مرحلے میں افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان مذاکرات ہونا ہے جو فریقین کے درمیان اعتماد میں کمی کے باعث تاحال ممکن نہیں ہو پائے۔

کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے افغانستان میں بد امنی و انتشار کی صورت حال پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ہو رہی۔ بے یقینی کی اس صورت حال کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بھارت نے افغانستان میں ایسے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ امن کی ہر کوشش ان کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتی، جب تک افغان عوام اور حکومت کو بیرونی سازشوں اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے نجات نہیں مل جاتی، خطے میں پائیدار امن کا قیام مشکوک رہے گا۔

یہ بات سو فی صد درست سہی کہ پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک، تاریخ ، مذہب ، ثقافت اور لسانیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے جڑے ہیں ۔پاکستان کے فوجی ترجمان کی میڈیا بریفنگ سے ایک بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسیاں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گی، جب تک اسے یہ گارنٹی نہ مل جائے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، کیونکہ پاکستان کے لیے ’’گریٹر پختونستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت‘‘ کا مسئلہ ’’جوں کا توں‘‘ ہی موجود ہے لیکن یہ وقت ہے کہ ماضی کی تلخیوں کا بھلایا جائے اور ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جائے۔ پاکستان نے بھی طور خم بارڈر وقتی طور پر ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کیا ہے۔

افغانستان سے بہت گہرائی سے منسلک ہونے اور ایک پالیسی رکھنے کے باوجود، ہم افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتحال کے لیے کوئی بہت زیادہ تیار نہیں تھے، اس کا کچھ اندازہ اس بریفنگ سے بھی ہوتا ہے جو پارلیمنٹ کو دی گئی۔امریکی انخلا  اعلانیہ ہونے کے باوجود حیران کن ہے۔ ریجنل دارالحکومت اس وقت حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

امریکی انخلا کا یوں تیزی سے ہونا کسی کے لیے متوقع نہیں تھا۔ تاجکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد بند کردی ہے اور 20 ہزار نئے دستے اپنی سرحد پر تعینات کردیے ہیں۔ روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے تاجک اور ازبک صدر سے بات کی ہے اور دونوں ملکوں کو یقین دلایا ہے کہ روس ان کی مدد کرے گا۔ یہاں پر ایک اور رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ امریکا نے انتہائی چالاکی سے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کیا ہے ، کیونکہ وہ پہلے ہی طالبان سے قطر معاہدے کی صورت میں یہ گارنٹی لے چکا ہے کہ وہ القاعدہ وغیرہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دیں گے۔

اب اگر افغان متحارب باہم دست وگریباں ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گے ، جب کہ امریکا یہاں کے مسلح گروہوں پر خرچ کرکے کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرسکتا ہے، جب کہ دوسری جانب امریکا نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں استحکام لانے کے لیے ایک ’’تعمیری شراکت دار‘‘ بنے جس پر اسلام آباد نے واشنگٹن کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں امن اب بھی قابل حصول ہے۔

بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی افواج کے تیزی سے انخلا، امن مذاکرات میں تعطل اور بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے پاکستان کی ان کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو اقتدار کی تقسیم کے انتظامات سے متعلق ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ نامی تھنک ٹینک کی ’’پاکستان: افغان امن عمل کی سپورٹ‘‘ نامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغان امن عمل تیز تر ہوتا ہے یا پوری طرح سے ناکام ہوجاتا ہے کسی بھی صورت میں اسلام آباد کے کابل اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے،چند روز بیشتر وزیراعظم عمران خان اپنے ایک انٹرویومیں بھی امریکا کو پاکستانی ہوائی اڈے دینے کے بارے میں واضح طور پر انکار کرچکے ہیں۔

جب کہ ایشیا ٹائم کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بگرام بیس خالی کرنے سے پہلے سابق امریکی صدور بارک اوباما اور جارج بش سے ٹیلی فون پر بات کی۔ انھیں افغانستان سے انخلا کے اپنے فیصلے پر اعتماد میں لیا۔ان سب معاملات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو افغانستان سے نکلنے کی جلدی ہے، انھیں نتائج کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور وہ دوحہ معاہدے پر اصرار کیے بغیر افغانستان سے جا رہے ہیں۔ بگرام بیس خالی کرنے سے متعلق اطلاع دینے تک کی زحمت نہیں کی گئی۔ وہ بھی اس حال میں جب وہاں واقع جیل میں ہزاروں طالبان قیدی موجود ہیں۔

یہاں پر شکوک وشبہات کا پیدا ہونا لازمی امر ہے کہ کیا امریکی جان بوجھ کر افغانستان کو تباہ کن خانہ جنگی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟فرض کرلیتے ہیں کہ یہ مفروضہ درست ہے تو پھر پاکستان اس ضمن میں کیا حکمت عملی ترتیب دے گیا ، کیا پاکستان اس صورتحال کا مقابلے کرنے کے لیے  چین، روس اور ایران سے رابطہ کرکے اپنی سفارتکاری کے ذریعے افغان متحارب فریقوں کو مفاہمت پر آمادہ کرنے اور امریکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کے ایجنڈے کو عملی شکل دے پائے گا، یہ ملین ڈالرسوال ہے ۔

کئی عشروں بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے سامنے ایک سنہری موقع ہے کہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔ دیگر ممالک تو اپنے مفادات دیکھیں گے لیکن اصل فیصلہ ان دونوں ممالک کی ’’بااثر شخصیات اور گروپوں‘‘ نے کرنا ہے کہ وہ چند عشروں بعد آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں بندوق یا قلم دیکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان چار دہائیوںسے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے موثر کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔

طویل جغرافیائی سرحدیں، مذہبی،سماجی، ثقافتی تعلق اور دفاعی حوالے سے دونوںممالک کے مشترکہ مفادات ایسے زمینی حقائق ہیں کہ جن کی بنیاد پر پاکستان برادر اسلامی ملک افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔سوویت یونین کی فوجی مداخلت، سوویت افواج کا انخلاء اور اس کے بعد پیداہونے والے غیر سنجیدہ حالات، طالبان کی حکومت سازی، نائن الیون سانحہ اور اتحادی افواج کی جار حانہ آمد سمیت کسی بھی قسم کے حالات میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

افغانستان میں سیاسی استحکام اور بحالی دراصل جنوب مغربی ایشیا ہی نہیں عالمی امن کی بنیادی ضرورت ہے۔ افغانستان کے پر امن ہونے کا دوسرا مطلب وسط ایشیا کے تمام ایشیائی خطوں اور ممالک سے محفوظ تجارتی تعلقات کی بحالی ہے۔

پرامن افغانستان کی مدد سے علاقائی وسائل کے بہترین استعمال کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگرممالک کے درمیان تعاون واشتراک کی راہیں ہموار ہوں گی۔پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو پر امن افغانستان بلوچستان سے ایران اور ترکی جب کہ خیبر پختونخوا اوربلوچستان سے وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور ترکی تک پر امن جغرافیائی اتصال کی شکل میں یہاں آباد کروڑوں زندگیوں کو خوش حال اورترقی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کاباعث بن سکتا ہے۔ عالمی تناظر میں افغانستان،چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں کی جغرافیائی قربت کے باعث خصوصی اہمیت کا حامل ہے جب کہ حساس جغرافیائی حیثیت،معدنی وسائل اورمحل وقوع کے دیگر پہلو اس کی بین الاقوامی اہمیت کی دلیل ہیں، اس لیے علاقائی امن وسلامتی کا سوال ہو یا عالمی امن اور ترقی کو درپیش چیلنج، افغان امن عمل کی کامیابی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔

چالیس سال سے زائد عرصہ سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ نائن الیون سے قبل اور بعد ازاں غیر ملکی جنگجوؤں کی افغانستان آمد سے پاکستان کو امن وسلامتی کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جرات مندانہ شرکت کے نتیجے میں پاکستان کو انتہا پسندی، عدم برداشت اور ان سب کے نتیجے میں ہولناک دہشت گردی کاسامنا کرنا پڑا۔ کھیل کے میدان، سیاحتی مقامات، کاروباری وتجارتی مراکز ویران ہو کر رہ گئے۔

پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی کے مسائل اور افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے ملک کو منشیات، ناجائز اسلحے کی بہتات اور امن وامان کے حوالے سے سنگین مسائل نے لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان تمام مصائب اور ہلاکتوں کوبرداشت کیا گیا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ افغان امن کے بغیر خطے کی سلامتی اورپاکستان کے استحکام کوممکن نہیں بنایا جا سکتا۔

The post افغان امن عمل اور پاکستان کو درپیش چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.



source https://www.express.pk/story/2200855/268
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post