پہلی محبت کا ذکر تو اکثر ہی کیا جاتا ہے، البتہ پہلی نفرت کا تذکرہ شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔ مجھے پہلی نفرت پرائمری اسکول کے زمانے میں نادیہ سے ہوئی۔
نادیہ میری کلاس فیلو اور سب سے اچھی دوست تھی۔ وہ میری پڑوسن بھی تھی۔ ہم دونوں ہی پڑھنے میں اچھی سمجھی جاتی تھیں، لیکن میری طبیعت ذرا لا اُبالی سی تھی، سب آتے جاتے بھی کچھ بے وقوفانہ غلطی کر جاتی۔ میرا حافظہ بھی نادیہ جیسا نہیں تھا۔ وہ مضمون پورا رٹ کر ویسے کا ویسا ہی لکھ دیتی اور پورے نمبر لے لیتی۔ میں خود سے مضمون لکھتی اور اسپیلنگ یا گرامر میں نمبر کٹ جاتے۔ یوں نجانے میری وجہ سے اہل خانہ کی ناک کتنی بار کٹی۔
31 مئی کا دن میرے ہم عصر کہاں بھلا سکتے ہیں۔ سورج سوا نیزے پر نہ سہی، یہی کوئی سوا دو سو کلومیٹر پر ہوا کرتا تھا، جب گراؤنڈ میں میدان سجتا، چمکیلی ٹرافیاں سجائی جاتیں اور اول، دوم، سوم آنے والے فخر سے سر بلند کرکے وہ وصول کرتے۔ اور ایک میری قسمت میں چہارم آنا لکھ دیا گیا تھا۔ اپنے چہارم آنے کے غم سے زیادہ یہ غصہ ہوتا کہ یہ نادیہ کیوں پہلی تین پوزیشنوں میں آجاتی ہے اور ایک چمکیلی ٹرافی اس کے گھر پہنچ جاتی اور شام ڈھلنے سے پہلے مٹھائی کی پلیٹ ہمارے گھر پہنچ جاتی۔ اور میں سوچا کرتی یہ لڈو تو ابو کی ناک ہے، برفی جیسے امی کی ناک ہے، جلیبی جیسے خالہ کی ناک ہے، سب کٹ گئیں۔
میرے اور نادیہ کے گھر کے بیچ میں کرن باجی کا گھر تھا، جہاں ہم سپارہ پڑھنے جاتے تھے۔ ایک دن ان کی امی نے بتایا کے رمضان کی طاق راتوں میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ بس اب تو جب طاق رات آئے میری یہی دعا ہو یا اللہ یا تو نادیہ کو فیل کردے یا پھر ہم دونوں کو اتنا دور کردے کہ کبھی شکل نہ دیکھیں۔ یہ دعا کرکے میں خود بھی رو پڑتی، کیونکہ میری نالائقی اور اس کی لائقی کے علاوہ ہمارے درمیان کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اس کی پوزیشن اور نمبر میرے لیے برداشت کرنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ مجھے اس کی شکل دیکھ کر مٹھائی اور مٹھائی دیکھ کر کٹی ہوئی ناکیں یاد آجاتی تھیں۔
پھر ہوا یوں کہ دعا قبول ہوگئی اور امی کا تبادلہ اسلام آباد سے کراچی ہوگیا۔ برسوں بیت گئے، نادیہ کی خبر نہیں۔ نادیہ ابڑو کہاں گئی، کیسی ہے؟ پہلی محبت تھی یا پہلی نفرت؟ آج بھی اچار پراٹھے کی خوشبو کسی کے لنچ باکس سے اٹھے تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں کہ جیسے ابھی وہ بولے گی تم کیوں نہیں کھاتیں اچار پراٹھا؟
کراچی پہنچ کر میں خوش تھی کہ چلو نادیہ سے جان چھوٹی۔ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ نادیہ تو ایک کردار ہے۔ بچوں کی ڈرائنگ روم ہراسگی تو ہمارا کلچر ہے۔ جب کوئی آئے ’’بیٹا تمہاری لکھائی تو اچھی ہے، ذرا چھٹا کلمہ تو سناؤ۔ نہیں آتا؟ بھئی میرے بیٹے کو تو چھ کلمے بمع ترجمہ یاد ہیں۔
پھر کوئی آنٹی آتیں تو کہتیں ’’لو اتنا اچھا لکھا اور ڈرائنگ اتنی بری۔ لگ ہی نہیں رہا انسان کا کان ہے یا بندر کا (ڈارونزم تب آتا تو آنٹی کو پڑھا دیتی)۔ پھر کسی رشتے دار کی آمد ہوتی ’’اوہو بیٹی تھرڈ آئی ہے۔ بیٹا تھرڈ پوزیشن تو تھرڈ کلاس ہوتی ہے۔ بھئی ہمارا بیٹا تو فرسٹ کلاس فرسٹ ہے‘‘۔
میرے امی ابو کبھی نہیں کہتے تھے کہ ہماری ناک کٹ گئی، لیکن اندر ہی اندر یہ دکھ مجھے مارتا تھا کہ میں فرسٹ کیوں نہیں آتی اور یہ بات حیران بھی کرتی تھی کہ ہر کلاس میں تیس چالیس بچے ہوتے ہیں، پھر ہمارے جاننے والوں میں سب کے بچے فرسٹ کیسے آتے ہیں۔ جو بچے کوئی پوزیشن نہیں لیتے یا فیل ہوتے ہیں وہ کدھر ہیں؟ مجھے یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جب کوئی آتا ہے کلاس روم کیوں کھل جاتا ہے۔ مجھے کسی کا بھی آنا برا لگتا تھا۔ میں تنہائی پسند ہوتی گئی۔
میری امی ٹریننگ کےلیے فلپائن گئیں تو وہاں ایک خاتون سے دوستی ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد وہ فلپائنی خاتون پاکستان آئیں تو ہمارے گھر بھی آئیں۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ میری جیسی چھوٹی کرسی پر آکر بیٹھ گئیں۔ میں نے دل میں سوچا اب کٹے گی ناک پوری قوم کی کہ کتنے نالائق بچے ہیں پاکستان کے۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت شفقت آمیز لہجے میں پوچھنے لگیں ’’کیسی ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک‘‘۔ انہوں نے پوچھا ’’تمہارا پسندیدہ کھیل کون سا ہے؟‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا ’’کھیل؟‘‘ کیونکہ مجھے لگا ہر ایک کی طرح پوچھیں گی ’’مضمون‘‘۔ انہوں نے مسکرا کر کہا ہاں کھیل۔ میں نے کہا ’’برف پانی۔‘‘ کہنے لگیں ’’واہ زبردست نام ہے۔ کیسے کھیلتے ہیں؟‘‘
جتنی دیر میں امی دہی بھلے اور پکوڑے لے کر آئیں ہم نے برف پانی سے بادام والی قلفی، چینجو سے گولا گنڈا، عینک والا جن سے عید مبارک والے غبارے تک ڈھیروں باتیں کیں اور ڈھیر سارے قہقہے لگائے۔ مجھے لگا شاید ان کے بچے نہیں تھے اس لیے انہوں نے پڑھائی کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن جب انھوں نے مجھے اپنی بیٹی کی تصویر دکھائی تو وہ بالکل میرے جتنی تھی۔ اس کی بھی انھوں نے ڈھیروں باتیں کیں، شرارتیں بتائیں۔ لیکن کہیں مجھے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ مجھ سے بہتر ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امی جب فلپائن میں تھیں تو سیڑھیوں سے گر کر بے ہوش ہوگئی تھیں۔ انہیں جب ہوش آیا تو بس میرا نام لیتی تھیں اور بتاتی تھیں کہ میں ان کا فخر ہوں، میں محنتی اور ذہین ہوں۔
مجھے بہت اچھا لگا اور سمجھ آگیا کہ معاشرے میں جو لوگ ہمیں صرف اپنے بہتر ہونے کا احساس دلاتے ہیں وہ ہمارے خیر خواہ نہیں۔
آج میں خود ایک ماں ہوں۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ماں اور میں اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے ملنے پر مجبور نہیں کرتی جو آتے ساتھ ہی بچوں کا وائیوا شروع کردیتے ہیں۔ جو بچوں کو کمتری کا احساس دلاتے ہیں۔ بے شک محنت میں عظمت ہے لیکن نفسیاتی طور پر ہراساں کرکے ہم بچوں کو کامیابی نہیں دلا سکتے۔ ہمیں یہ ڈرائنگ روم ہراسگی اور ٹو کا ٹیبل کلچر ختم کرنا ہوگا، تب ہی جاکر بیٹا ’’میٹرک کے نمبر کتنے آئے‘‘ کا خوف ختم ہوگا۔ اور ’’ابھی تک ماں باپ کا کھا رہے ہو، نوکری ملتی نہیں یا کرتے نہیں‘‘ جیسے واہیات مذاق ختم ہوں گے۔
ہمیں اپنی ناکوں کو اتنا مضبوط کرنا پڑے گا کہ ان کی سربلندی یا کٹ جانا ہمارے بچوں کے نمبروں، نوکریوں اور تنخواہوں پر منحصر نہ ہو۔ ہمیں لوگوں کو اپنے بچوں سے دل دکھانے والی باتیں کرنے سے روکنا ہوگا۔
کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں بچوں کا تعلیمی نقصان ہوا۔ امتحان آن کیمپس ہوں یا آن لائن، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن بحیثیت والدین ہمیں اپنے بچوں کو بٹھا کر نفسیاتی طور پر انہیں یہ باور کرانا چاہیے کہ ہم ان کی محنت، ان کا جذبہ دیکھتے ہیں، نمبرز کی اہمیت نہیں۔ کس کے زیادہ آئیں کس کے کم۔ زندگی ایک دوڑ نہیں۔ سب کی ایک منزل نہیں۔ اچھے نمبر آنا اچھے مستقبل کی گارنٹی نہیں۔ اچھے مستقبل کی گارنٹی محنت ہے۔ نمبروں میں عظمت نہیں، محنت اور لگن میں عظمت ہے۔
شاید اس بات سے آپ کو اختلاف ہو لیکن ذرا سوچیے ہم زندگی کو نوکری تک ہی کیوں دیکھتے ہیں۔ یہ زندگی ہر ایک کا ایک الگ امتحان لاتی ہے۔ ہر ایک کا پرچہ مختلف ہے۔ ضروری نہیں کہ ہیلی برٹن میں پہلی نوکری کرنے والا ہمیشہ شاد و آباد رہے۔ یا سی ایس پی افسر بننے والا کسی پریشانی سے نہ گزرے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف ذہانت پر توجہ دیتے ہیں، جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس کی پرورش کےلیے محنت نہیں کرتے۔ ہمیں اپنے بچوں کے دل میں پڑھائی کی لگن پیدا کرنی ہے، نہ کہ دوسرے بچوں کے زیادہ نمبروں کی حسد یا نوکری نہ ملنے کا خوف۔ ہمیں اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ کبھی کبھی بہترین یونیورسٹی سے ٹاپ کرنے والا بھی زندگی کی دوڑ میں ایک میٹرک پاس سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو خوف سے آزاد کرنا ہوگا، ورنہ شاید کم نمبر آنے کی وجہ سے ماں باپ کا سامنا نہ کر پانے کے خوف سے بچے خود سوزی کرتے رہیں گے۔
بے شک ہمیں اپنے بچوں کو پیار و محبت سے تعلیم کے ساتھ منسلک رکھنا چاہیے لیکن ہمیں ان کا دوست بن کر ان کے کھیل کود، ان کی پسند کی باتیں بھی کرنی چاہئیں۔ ہمیں ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ وہ ای گیمنگ/ فٹبال/ کرکٹ میں بہترین ہیں، ان کے کھیل اور اسکلز سے ہم متاثر ہیں۔ اس طرح وہ ہمیں اپنا دوست محسوس کریں گے۔ جب وہ پڑھ رہے ہوں ان کے ساتھ بیٹھ کر ہمیں بھی کوئی کتاب پڑھنی چاہیے۔ اس طرح وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم بس نظر رکھ رہے ہیں بلکہ ہم پڑھائی کے عمل کا حصہ بن جائیں گے۔ ہمیں اپنی پسند اور سمجھ کے مضمون پر ان سے باتیں بھی کرنی چاہئیں اور ان کی سمجھ کو سراہنا بھی چاہیے۔ اس طرح پڑھائی ہمارے گھر کا حصہ بن جائے گی۔
اگر ہم اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں ان کا ساتھی بن کر ان کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا۔ محض ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے آواز دے کر ’’نالائق انسان پڑھ لے، پھر بلال کے تم سے زیادہ نمبر آجائیں گے‘‘ کہہ کر ڈرامہ یا خبروں میں گم ہوکر ہم ان کو ایک مضبوط کامیاب انسان نہیں بنا سکتے۔ ہمیں ان کی ڈھال بننا ہے۔ ان کا دوست بننا ہے۔ خیرخواہ تو ہم ہیں، لیکن دوست بننے کےلیے ان کی دماغی سطح پر جاکر ان کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہے اور انہیں بے خوف ہوکر محنت کرنے پر مائل کرنا ہے۔
اگر آپ کے بچے چھوٹے ہیں تو آپ پراعتماد طریقے سے اپنے ملنے جلنے والوں کو بتائیے آپ ملنے جلنے کے وقت بچوں سے اے بی سی سننا پسند نہیں کرتے۔ آپ کے گھر کھیل، پڑھائی ہر چیز کا ٹائم ہے اور آپ بچوں کے مقابلے بھی پسند نہیں کرتے۔ کس کو کیا آتا ہے کس کو نہیں؟ جیسے سیلف میڈیکیشن نقصان دہ ہے ویسے بچوں کی سیلف اور تقابلی اسیسمنٹ بھی نقصان دہ ہے۔ بتا بتا کے، جتا جتا کے۔
اگر آپ کے بچے بڑے ہیں، خاص کر جو آج کل آن کیمپس امتحان کی وجہ سے پریشان ہیں، آپ آج ہی انہیں بلا کر بٹھائیے اور پیار سے سمجھائیے آپ ان کی محنت اور لگن دیکھتے ہیں۔ اس مشکل سال کے مسائل سے بھی آپ بخوبی آگاہ ہیں۔ آپ کو اللہ پر اور ان کی محنت پر اعتماد ہے اور آپ ہر قسم کا نتیجہ سننے کےلیے تیار ہیں۔ بس آپ چاہتے ہیں بچہ محنت کرے باقی
مالی دا کم پانی پانا
بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پُھل لانا
پاوے لاوے یا نہ لاوے
یقین جانیے آج یہ سب لکھنے کےلیے ایک بچے کی ٹویٹ نے مجبور کردیا جس نے لکھا تھا ’’میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ میں آن لائن اچھا پڑھ نہیں پایا، اب برے نمبروں سے ماں باپ کو شرمندہ دیکھنے سے بہتر ہے وہ مجھے مردہ دیکھیں‘‘۔
اپنے بچوں کے نمبروں سے زیادہ ان کی دماغی و نفسیاتی حالت کو دیکھیے۔ ان کا ساتھی بنیے۔ یقیناً اس مشکل سال بچوں کو حکومت کے درست فیصلوں کے ساتھ ساتھ ماں باپ، دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے ملنے والی پراعتمادی اور شفقت کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post ہمارے بچے اور تعلیم appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2190824/464