سائنس نے اور اس کی نت نئی ایجادات نے جہاں ہم پر بہت سے کرم کیے، وہیں کچھ ظلم بھی ہوئے۔ ان میں سے ایک دوستوں اور محبت کرنے والوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بھی منقطع ہوا۔
میرے اپنے گھر میں ڈاکیے کا کس بے تابی سے انتظار کیا جاتا تھا۔ وہ رسالے، لفافے، پوسٹ کارڈ لے کر آتا اور ہماری عید ہوجاتی۔ میں نے کم سنی میں برٹش کونسل کی لائبریری میں نامور اور نام دار لوگوں کے خطوط کی جلدیں دیکھی ہیں۔
جن میں اپنے دور کی تاریخ اور تہذیب کی کیا کمال عکاسی ہے۔ ہم اردو والے بھی کچھ کم نہ تھے مکاتیبِ غالب ہمارا نثری سرمایہ تھے۔ مدیر ’نقوش‘ طفیل صاحب نے اپنے پرچے کا خطوط نمبر شایع کیا جو ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔
قرۃ العین حیدر کو بھی خطوط سنبھال کر رکھنے کا شوق تھا۔ اس کا اندازہ ان کی مرتب کردہ کتاب ’’دامانِ باغباں‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس میں وہ خطوط بھی ہیں۔ جو سرسید احمد خان نے ان کے بزرگوں کو لکھے۔ ان کے والد اور والدہ کو متعدد اکابرین نے خط لکھے اور مجھ ایسے ہیچ مداں کے خط بھی ہیں۔
خطوط کے اس مجموعے میں کیسے کیسے ادیبوں اور شاعروں کے خط ہیں ان میں سے تین خط آپ کی نظر کررہی ہوں۔ یہ ہمارے بہت مشہور شاعر ابن انشا کے ہیں۔ جنھوں نے نثر میں اپنے کمالات دکھائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
9 مئی 1975
عینی بیگم… آداب
آپ کا خط ملا۔ اسے سرآنکھوں پر رکھا۔ بمبئی نگر سے پدماسچدیو کا خط آیا جس میں میرے مضمون اور آپ کے ترجمے کا تراشہ ملفوف تھا۔ پدما سے ہماری خط و کتابت ہے۔ معصوم سی خط و کتابت جیسی انڈر گریجویٹ لڑکے لڑکیوں میں ہوتی ہے اور جیسی کہ ہماری عمر کا تقاضا ہے۔
ہوش کی منزل کو پہنچیں گے تو ان جھمیلوں اور موہ مایا سے گریز کریں گے۔ لو ایک قصہ سنو۔ پچھلے مہینے ماری پور جانا ہوا۔ اپنے مدنی ساتھ لے گئے تھے۔ وہاں ان کے مرشد رہتے تھے۔ بابا ذہین شاہ تاجی۔ تصوف اور قوالیوں کے بحر ناپیدا کنار کے شناور۔ میرا قلب ابھی جاری نہیں ہوا، اس لیے جیسا گیا، ویسا لوٹ آیا۔ راستے سے گزرتے ہوئے جس کی شکل اب بالکل بدل گئی ہے، پہلی بار آپ کے ہاں ماری پور جانا یاد آیا۔ 25 برس پہلے ایوب احمد کرمانی کے ساتھ۔ پھر ادھر جانے کا موقع نہ ملا تھا۔ اب ہماری عمر میں 25 برس باقی نہیں کہ تیسری بار جائیں اور جائیں تو کیوں جائیں؟
یہ بڑا کرم آپ نے کیا کہ ہمارے مضمون ترجمہ کیا اور زیور طبع سے آراستہ بھی کیا۔ بعض جگہ ہندوستان کے چند ناموں کا ذکر آیا تو آپ ڈنڈی ضرور مار گئی ہیں۔ سو یہ صحبت کا اثر ہے۔ اب تو یہ لوگ ڈنڈی ہی نہیں ڈنڈا مارتے ہیں۔ ہاں تو پدما کے خط کے بعد ہم جھنجھلا رہے تھے کہ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔ آپ کا لفافہ بھی آیا۔ اخبار جہاں میں دو چار دن پہلے کا رکھا آیاہوگا۔
دل کا غبار دھل گیا۔ پرچہ مذکور نہیں پہنچا۔ اب اس کتاب مستطاب کو دلی سے ہند پاکٹ بکس والے چھاپ رہے ہیں، دیکھیے کب تک چھاپتے ہیں اگر چند کلمات اس کے جیکٹ کے لیے آپ لکھ دیں بشرطیکہ Undiluted تعریف میں ہوں تو آداب بجا لاؤں۔ یہ جملہ شرطیہ نا حق لکھ دیا۔ میں جانتا ہوں جتنے نقاد صائب نظر رکھتے ہیں، وہ میری تعریف پر مجبور ہیں۔ بعض کج فہم اور کج نظر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو میری تحریر میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ آپ کا شمار آپ خود ہی جانتی ہیں کہ کن میں ہے۔
میری ایک کتاب آوارہ گرد کی ڈائری ہندوستان میں چھپ گئی ہے۔ مکتبہ جامعہ وغیرہ کی جو فہرستیں مجھے ملی ہیں ان میں ہے۔ لیکن میں نے ایک پورا سیٹ اپنی کتابوں کا ایک بی بی کے ہاتھ آپ کے لیے بھیجا تھا کہ بریلی جاکر سپرد ڈاک کردیں۔ وہ بی بی وہاں جاکر صاحب فراش ہوگئیں۔ گھٹنے پر ضرب آئی۔ جانے کس کی آنکھیں پھوڑنے کے لیے مارا ہوگا۔
وہ ویزا ختم ہونے پر اپنے بھائی کو سپرد کرکے آگئیں۔ وہ سیٹ مل گیا یا دوبارہ بھیجوں۔ اس کتاب کے علاوہ اس میں میرے سفر نامے ہیں۔ ’’آوارہ گرد کی ڈائری‘‘ ’’دنیا گول ہے‘‘ ’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ اتنے سفر نامے ہو گئے ہیں کہ اب کہیں باہر جاتا ہوں تو امیگریشن والے حلف نامہ لیتے ہیں کہ آ کر سفرنامہ نہیں لکھوں گا۔ ان برسوں میں یورپ کی طرف جانا بہت رہا۔ زیادہ تر جاپان۔ سالِ گزشتہ تین بارگیا، ہر بارپان ایم مسافر کے طور پر دلی کے ٹرانزٹ میں تھوڑی دیر کو اترتا ہوں اور حیرت و حسرت کا مارا پھر جہاز میں آ جاتا ہوں۔ دیکھیے کب راستے کھلتے ہیں، کب سبیل بنتی ہے۔
’’کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا
سو اب ٹھہرا ہے آخرفن ہمارا‘‘
ہفتہ کے ہفتے، سنڈے کے سنڈے۔ ایک کالم جسے جمیل الدین عالی Bufoonery کا لقب دیتے ہیں اخبار میں لکھتا ہوں۔ اتنا اچھا ہوتا ہے کہ اپنے ہاتھ چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ بار بار پڑھتا ہوں لیکن طبیعت سیر نہیں ہوتے۔ ساتھ کے کالم میں مرزا جمیل الدین عالی کا عالمانہ اور فاضلانہ کالم رہتا ہے۔ سنجیدہ لوگ ان کا کالم پڑھتے ہیں۔ قوم کے درد میں ڈوبا ہوا اور اسلام کے نشے میں سرشار ہوتا ہے۔ ویسے ہمارے یہ عزیر آج کل آسودہ معاش رکھتے ہیں۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ ہیں۔ بڑے دھانسو بینکر گنے جاتے ہیں۔ان کی غزلوں، دوہوں اور گیتوں کا دوسرا مجموعہ حال میں آیا ہے۔ آپ کماحقہ اشتیاق کا اظہار کریں تو بھیجا جاسکتا ہے۔
اردو کی آخری کتاب میں سے ایک آدھ قسط اور ہوسکتی ہے۔ خصوصاً حکایت لقمان جن کا سرنامہ ہے ۔ دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ آپ انگریزی میں خود ترجمہ کریں تو اچھا ہے ورنہ یہاں سے ترجمہ کراکر بھیجوں، آپ جانتی ہیں مجھے شہرت کی تمنا نہیں ہے۔ لیکن قارئین کے پرزور اصرار کا کیا کیا جائے۔ ان چند برس میں بہت کچھ ادب عالیہ اس فقیر کے قلم سے سرزد ہوا ۔ وہ بزبان انگریزی آپ کے پرچھے کی شوبھا بڑھانے کے لیے اور سرکولیشن گھٹانے کے لیے فوقتاً فوقتاً بھیجا جاسکتا ہے۔ جی کڑا کرکے جواب دیجیے۔ یوں تو سفر ناموں میں بھی آپ کو بہت سے لولوئے لالہ ملیں گے۔
اچھا بھئی اب ہاتھ دکھنے لگے۔ یہ خط یہیں ختم ہے۔ ہاں وہ رائے اس کتاب کے بارے میں مجھے یا پرکاش پنڈت مہووے کو بھیج دیجیے اور کار لائقہ و نالائقہ سے مطلع کیجیے۔ وہ نظم بھی مل گئی تھی۔ ’’یہ بچہ کس کا بچہ ہے۔ اور بھی بہت کلام بلاغت نظام ہے۔ سننے والے میں تحمل کا مادہ ہوتو۔
خاکسار ابن انشا
75/6/3
عینی بیگم
جب کہ میں نے پیش ازیں یعنی اس سے پہلے بھی لکھا تھا کہ اردو کی آخری کتاب کا انڈین ایڈیشن پنڈٹ Hind Pocket Book چھاپ رہے ہیں۔ آپ اس کے لیے کوئی طویل یا مختصر ، تعارف، مقدمہ، پیش لفظ، بھومکا، پریچیہ فوراً ترنت لکھ کر ارسال کریں اور عنداللہ ماجور ہوں، میرے پہلے خط، پتر نامہ شوق کا جواب بھی ضرور دیں اور بخل مانع نہ ہوتو السٹرٹیڈ ویکلی بھی بھیجا کریں۔ اس کا ملنا اور نہ ملنا ہمارے ڈاکیوں یا ڈاکوؤں کا اور ہمارا داخلی معاملہ ہے۔
آشا یہ کہ کشلتا سے ہوگی بلکہ کشلتا پور وک، خوش، آنند۔ پرکاش پنڈت کاپتہ آپ کو معلوم ہوگا۔ پھر بھی اطلاعاً…
Hind Pocket Book.ltd
G.T Road, Shahadra, Delhi.110032
خاکسار ابن انشا
31 مارچ 1977
عینی بیگم
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ہم بھی یہاں آگئے ہیں۔ آئے تو تین سال کے لیے ہیں لیکن اتنی استقامت ہم میں نہیں ہے دیکھیے کب بھاگتے ہیں۔ کام ہمارا انڈیا آفس لائبریری سے متعلق ہے۔ کسی دفتر وفتر کے پاس نہیں ہے۔ اب آپ سے ملاقات کے امکانات ذرا روشن سمجھیے کیوں کہ آپ کے ملک ہم نہیں آسکتے باقی انقلابات زمانہ کا کیا لکھیں۔ کرشن چندر کا داغ دل پر ہے۔ سنا ہے میرے عزیز دوست ساحر بھی علیل ہیں۔ ان کا پتہ مطلوب ہے۔ عسکری کا معلوم ہوگیا ہوگا کہ پیرس میں پریس کونسلر ہیں۔ عالی صاحب اسمبلی کے لیے بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی اور متحدہ محاذ نے انھیں چاروں شانے چت گرادیا۔ عزت سادات رہ گئی۔
اب آپ خبر سنائیے۔ میں اپنی تازہ ترین کتاب بھیج رہا ہوں۔ امکان ہے کل تک مل جائے گی۔ ڈاک کا پتہ بھی ہوگا۔ سفارت خانے کے پتے پر خط نہیں منگانا چاہتا۔ سحاب قزلباش روز ملتی ہیں۔ ان کی معرفت لکھ سکتی ہیں۔
اچھا اب ہمارا مجموعہ قبول کرو۔
خاکسار
ابن انشاء
یہ وہ دن تھے جب ابن انشا اپنا رختِ سفر باندھ رہے تھے اور ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن سے ان کی یہ غزل صبح و شام سنائی جاتی تھی کہ
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو
مجھے نہیں معلوم کہ قرۃ العین حیدر نے انھیں کیا جواب دیا لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ جملے محفوظ ہوگئے کہ اب لکھتے لکھتے ہاتھ دکھ گئے۔ دونوں اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔ جانے اوپر ملاقات ہوئی یا نہیں ہوئی، یا وہاں بھی ایک دوسرے کو خط لکھتے ہیں۔
The post تین خط appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2187736/268