آنکھ مچولی ہمارے بجلی کے محکمے کا پسندیدہ کھیل ہے چنانچہ بجلی کبھی آتی ہے اور کبھی چلی جاتی ہے۔ معاف فرمائیے! یہ فقرہ ہم نے کچھ غلط لکھ دیا ہے۔
اصل فقرہ یوں ہے بجلی اکثر جاتی ہے اور کبھی کبھار ذرا دیر کے لیے آ بھی جاتی ہے۔ یہی حال ہماری جمہوریت کا بھی ہے جس کے چرچے ہمارے جمہوریت پسندوں کے لبوں پر جاری رہتے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین اس کے حسن کے قصیدے پڑھتے پڑھتے تھکتے بھی نہیں لیکن یہ وہ گوری جس کا جوبن چٹکیوں میں لوٹا جا رہا ہے۔
اس کا ثبوت وہ ہنگامہ ہے جو قومی اسمبلی کے گزشتہ بجٹ اجلاس کے موقع پر کیا گیا۔ جس سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ اس خیال کو تقویت ملتی ہے اس سرزمین میں جمہوریت کا پودا پروان نہیں چڑھ سکتا۔ اس کا بنیادی سبق یہ ہے کہ جمہوریت کے دعویدار ہمارے سیاسی قائدین نے جمہوریت کا سبق کبھی پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی ان کا مزاج جمہوری ہے۔
اس بات کا ثبوت اس لیے درکار نہیں کیونکہ یہ بات ہم سب پر عیاں ہے۔ آپ کسی بھی سیاسی جماعت کی مثال لے لیجیے آپ خود اندازہ لگا لیجیے، ماسوائے جماعت اسلامی کے۔ خدارا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس سے ہمارا کوئی ذاتی تعلق یا مفاد وابستہ ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم غالب کے بقول:
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں
برسبیل تذکرہ ہم نے اپنی اولین تعلیمی ڈگری ماسٹرز پولیٹیکل سائنس میں حاصل کی تھی جس کے دوران ہمیں مختلف مفکرین اور حکمرانوں کا عمیق مطالعہ کرنے کا موقعہ میسر آیا۔ اس کی بدولت ہمیں یہ جاننے کو ملا کہ سیاسی کھیل عیاری ہے۔ اس کے علاوہ عملی سیاست پر نظر ڈالنے سے کسی مفکر کا یہ قول بھی پڑھنے کو ملا کہ:
“Politics is the game of Rascals” یعنی سیاست بدقماشوں کا کھیل ہے۔ ذرا غور فرمائیے تو معلوم ہو جائے گاکہ اگرچہ بظاہر یہ قول نامناسب اور جارحانہ نظر آتا ہے لیکن صداقت یہی ہے۔ یہ وہ کھیل ہے کہ جس میں فیئر اور فاؤل کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی اور جائز و ناجائز میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے تو آپ کو باآسانی یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ بات حرف بہ حرف درست ہے۔ سیاست اور شرافت کا بیر بھی ازلی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عظیم قائدین بشمول قائد اعظم محمد علی جناح جیسے گنتی کے چند سیاست دان اس سے قطعی مبرا تھے۔
جنھوں نے ہمیشہ قوانین اور اصولوں کی پاسداری کی اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے اپنے نقوش قدم چھوڑ دیے۔ اس کے علاوہ تنظیم اور اتحاد اور یقین محکم بھی ان کے نقوش پا ہیں جن پر نہ چلنے کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ جب تک ہم ایسا کرتے رہیں گے ہم اس کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے۔ یوں کہنے کو تو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں لیکن ہمارا طرز عمل نہ اسلامی ہے اور نہ ہی جمہوری۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے المیے سے دوچار ہوئے مگر افسوس صد افسوس ہمارے طرز عمل اور چلن میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی اور نہ ہی آیندہ اس کے آنے کے کوئی آثار بھی نظر آتے ہیں۔
خدمت وطن کے بجائے ہمارے سیاستدانوں کا ہدف ذاتی اور گروہی مفاد ہے۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کا یہی رویہ رہا ہے۔ یہ بات تلخ ضرور ہے لیکن ناقابل تردید ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا ملک ترقی معکوس کی راہ پر چل رہا ہے اور قوموں کی برادری کے کارواں میں بہت پیچھے ہیں۔
قومی اسمبلی کے بجٹ جیسے اہم موقع پر پیش آنے والا یہ ناخوشگوار واقعہ پوری دنیا میں ہماری رسوائی کا سبب بنا ہے۔ یہ وہ داغ ہے جسے مٹنے میں بہت وقت درکار ہوگا۔ انتہائی افسوس اس بات کا ہے کہ اس میں ایک خاتون نے ایک معزز مرد رکن پر ہاتھ اٹھایا جو نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ صنف نازک کے منصب اور مقام کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ اور اس میں ملوث تمام لوگوں کی عدم برداشت کا نتیجہ ہے جس پر سب ہی کو نادم اور معذرت خواہاں ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں مرزا غالب یاد آ رہے ہیں جنھوں نے فرمایا تھا کہ:
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تم ہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
یہ پہلا موقعہ نہیں کہ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ قومی اسمبلی میں ارکان کی ہنگامہ آرائی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ لیکن یہ حالیہ واقعہ اس اعتبار سے انتہائی قابل مذمت ہے کہ یہ بجٹ اجلاس کے اہم موقع پر پیش آیا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے منتخب عوامی نمایندے قومی امور میں دلچسپی لینے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان نمایندوں کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ ان کا مقام کیا ہے اور وہ کس ایوان میں بیٹھے ہیں۔
انھیں یہ خیال بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کو کیا منہ دکھائیں گے جنھوں نے ان پر اعتماد کرکے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ملک و قوم کی عزت اور حرمت ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ایک خاتون نے مرد رکن پر ہاتھ اٹھا کر تمام پاکستانی خواتین کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم یہ واقعہ ایک wake up call ہے جس کا مقصد شعور کی بیداری ہے۔ گویا گزشتہ راہ صلوٰۃ آیندہ راہ احتیاط۔
بیتی تاہے بسارئیے
آگے کی سدھ لے
The post یہ اندازِ گفتگو کیا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2195641/268