انسانی زندگی فطری اصولوں کی پیروی کرنے کے بجائے مصنوعی طرز عمل اختیار کر لیتی ہے تو ذہنی و جسمانی امراض جنم لیتے ہیں۔ موجودہ دنیا مستقل ذہنی دباؤ سے گذر رہی ہے۔ مسائل ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور یہ رہتی دنیا تک انسانی خوشیوں و خوابوں کا تعاقب کرتے رہیں گے۔
زندگی کی آسانیاں تلاش کرنے والوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ زندگی تضادات کا مجموعہ ہے۔ اس تضاد جو سمجھے بغیر مسائل کا حل نہیں مل پاتا۔ موجودہ دور میں ایک طرف ماحولیاتی آلودگی کا خطرے میں اضافہ ہے تو دوسری جانب برقی آلات کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ ہم دن کا بیشتر حصہ مصنوعی روشنی میں گزارتے ہیں ، جو ذہنی دباؤ میں اضافہ کر دیتی ہیں۔
مصنوعی روشنی ، ہوا اور طرز زندگی نے زندگی کے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے بے خوابی، کمزور مدافعتی نظام ، مزاج کی خرابیاں اور ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ میلاٹونن نیورو ٹرانسمیٹر ، رات کی نیند کے سائیکل کو فعال کرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق موبائل فون یا ٹیلی وژن اسکرین کی روشنی ، اسپیکٹرم لائٹ سے زیادہ روشنی ہمارے جسم میں میلاٹونن کی پیداوار میں رکاوٹ پیدا کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے سرکیڈین تال کی کارکردگی غیر فعال ہوجاتی ہے۔
غیر فطری انداز زندگی ہر طرح سے انسانی صحت کے لیے خطرہ ہے مگر جسے مستقل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جسم کے مختلف کام ، سرکیڈین تالوں کی پیروی کرتے ہیں۔ دماغ میں وقت سے آگاہ کرتی خودکار گھڑی کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ سرکیڈین تال مستقل اور پرسکون اچھی نیند کو فروغ دیتا ہے۔ لیکن جب اس کی تعمیل نہیں کی جاتی تو یہ نیند میں خلل کا باعث بنتا ہے ، حالیہ تحقیق کے مطابق جسمانی اور ذہنی صحت کی بہتری میں سرکیڈین تال لازمی کردار ادا کرتے ہیں۔
لہٰذا مصنوعی روشنیاں اور غیر فطری طرز زندگی سے انسانی زندگی کو کئی خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ موجودہ وقت میں ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر مستقل تھکن سے کئی پیچیدہ امراض پیدا ہوجاتے ہیں لہٰذا تھکن کا بروقت حل نکالنا اشد ضروری ہے۔ تھکن کی مختلف صورتوں میں Chronic Fatigue Syndrome پیچیدہ حالت ہے ، جو ذہنی، جسمانی اور جذباتی کیفیات کا مجموعہ ہے۔ ایک ایسی مستقل تھکاوٹ جسے سمجھا نہیں گیا اور نہ ہی حل نکالنے کی کوشش کی گئی۔
مستقل تھکاوٹ کی وجوہات میں موروثیت، کمزور مدافعتی نظام ، بیماریاں، ہارمونز کا عدم توازن اور وائرسز اور بہت سے کاموں میں بیک وقت الجھاؤ وغیرہ آ جاتے ہیں۔ دائمی تھکاوٹ سینڈروم کی علامات ہر شخص میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ علامات میں مستقل تھکاوٹ ، گلے کی سوزش، سر درد ، پٹھوں یا جوڑوں کا درد، چکر وغیرہ آنا۔ موجودہ حالات کے پیش نظر جدید ٹیکنالوجی ذریعہ تعلیم بنی ہوئی ہے۔ موبائل اور کمپیوٹرز زیادہ استعمال ہو رہے ہیں۔ اسی حوالے سے ذہنی دباؤ اور جسمانی تھکن میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی تناظر میں ایک اور اصطلاح کا تذکرہ سننے میں آرہا ہے جسے ’’برن آؤٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ نئی اصطلاح ہے ، جو پہلی بار 1974 میں ہربرٹ فریڈنبرجر نے اپنی کتاب ، برن آؤٹ: ’’ دی ہائی کاسٹ آف ہائی اچیومنٹ‘‘ میں متعارف کروائی تھی۔ جس کے مطابق ، “حوصلہ افزائی یا حوصلہ افزائی کا ختم ہونا ، خاص طور پر جہاں کوئی مقصد یا تعلق مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو یہ ذہنی ، جذباتی اور روحانی تھکن میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک خطرناک کیفیت ہے جو ذہنی و جسمانی امراض کی وجہ بنتی ہے۔ ذاتی مسائل کے علاؤہ مجموعی طور پر سماجی ماحول پریشانی اور افسردگی کی طرف زیادہ تر مائل رہتا ہے۔ گھر، خاندان اور ادارے ہر طرح کے تضادات کا شکار ہیں۔ یہی صورتحال الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے۔ منفی رویوں کی ایک گہری کھائی ہے جس میں خوشی اور خوشحالی کے اسباب غرق ہوتے جارہے ہیں۔ اکسانے اور بھڑکانے کی ایسی روایات تشکیل پا چکی ہیں، جس نے سماجی زندگی کا سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے۔
مختلف چینلز پر مختلف پارٹیوں کے کارکنان کو مدعو کرکے ، میزبان انھیں اکسا کر لڑوا دیتا ہے ، جس سے چینل کی ریٹنگ ہوتی ہے مگر اخلاقی اقدار زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ یہ تمامتر حالات انسان کے اندر مزید مایوسی بھر دیتے ہیں۔ جدید دور کا انسان مختلف وجوہات کی وجہ سے تھک رہا ہے۔ نفسیاتی نقطہ نگاہ سے مستقل تھکن کی نئے زاویے سامنے آرہے ہیں جن میں zoom Fatigue بھی شامل ہے۔
کووڈ 19 کے بعد زوم میٹنگز ، آن لائن گفتگو اور پیشہ ور رابطوں کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ زوم رابطوں کے حوالے سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ کام ، دوستی اور گھریلو زندگی یکجا ہوگئے ہیں۔ وہ تعمیری وقفے کھو گئے ہیں ، جہاں لوگ خود کو تازہ دم کیا کرتے تھے۔ تخلیقی سوچ اور رویے مفقود ہیں۔ ہم کام اور تفریح کو علیحدہ نہیں کر سکے ۔ سوشل میڈیا کو تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں جب کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ڈپریشن اور ذہنی عارضے بڑھے ہیں۔
سماجی عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے فیس بک کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی رابطوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ساتھ مل بیٹھنے سے جو تسلی اور ڈھارس ملتی ہے وہ سماجی رابطوں کے ذرایع سے نہیں مل سکتی ۔ سوشل میڈیا کے رابطے مصنوعیت اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ جن سے وقتی راحت ملتی ہے مگر جن کے منفی نتائج زندگی پر ہر طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں موجودہ صورتحال میں بچوں ، نوجوانوں اور بڑوں کو نفسیاتی طور پر صلاح و مشورے کی زیادہ ضرورت ہے۔
انھیں سائیکالوجسٹ سے ضرور رجوع کرنا چاہیے۔ مثبت گفتگو ، بات چیت ، دوستانہ رویے ، خوشگوار ماحول ترتیب دینے سے کئی خود ساختہ مسائل خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ آپ اگر اپنے حالات میں بہتری چاہتے ہیں تو لوگوں کو موقع فراہم کریں اظہار کا اور اچھے سامع بن جائیں۔
انسان اپنی زندگی کے ناخوشگوار حالات اور المیوں کا چناؤ خود کرتا ہے۔ اگر وہ خود چاہے تو سوچ کے جمود کو منتشر کر سکتا ہے۔ سوچ کا جمود اور یکسانیت کا زہر سماجی زندگی کو ساکن پانیوں جیسا غیر متحرک اور تعفن زدہ بنا دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام نے مطالعے ، فطرت ، فلاحی کام اور باغبانی جیسے تعمیری مشغلے اپنا کر زندگی کو بہتر بنایا۔ وقت کی قدر ، بہتر تقسیم اور سمجھ کے ذریعے ہی زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
The post سوچ کا جمود appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2189422/268