11News.pk | Online News Network
11News.pk | Online News Network

مکانوں پر تالے پڑے تھے اور باہر چابیاں رکھی تھیں

میں دنیا کی ایک بلند جگہ پر تنہائی لینے جا رہا تھا۔

آج کل تنہائی میسر ہی کہاں ہے؟ اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ مارکیٹ میں محض چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں دست یاب ہے اور وہ بھی ہر ایک کی دسترس میں نہیں۔

آپ اگر تنہا ہونے کوشش بھی کریں تو یہ ہمارا کلموہا سوشل میڈیا ہمیں تنہا نہیں ہونے دیتا۔ کہنے کو تو اس موذی وبا نے ہر ایک کو تنہا کر دیا ہے لیکن حقیقت میں ہم سب انٹرنیٹ کی مزید بندشوں میں الجھ گئے ہیں۔ کوئی شخص تنہا ہو کر بھی تنہا نہیں رہا۔ سارے جہاں کا درد اپنے موبائل پر لیے پھرتا ہے۔

تنہا ہونے کی خوشی نا قابلِ بیان ہے۔ تنہائی کی اہمیت سے کسی صورت بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی سائنسی ایجاد ہو یا پھر کوئی تخلیقی کام تنہائی اولین شرط ہے۔ جو شخص تنہائی کی اہمیت کو نہیں سمجھتا، وہ کبھی بھی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ آپ تنہائی میں وہ ہوتے ہیں جو آپ کسی دوسرے کے سامنے نہیں ہو سکتے تو یوں سمجھ لیجیے کہ میں بلندی پر، تنہائی میں اپنے آپ سے ملنے جا رہا تھا۔ اپنے آپ کو تلاش کرنے جا رہا تھا۔

میں اپنے لیے جوگ کی تلاش میں تھا۔ میرا جوگی، میرا رانجھن مجھے میرے آس پاس، یہی کہیں میدانی علاقے میں نہیں مل رہا تھا۔ پچھلے برس میں اسی کی تلاش میں ٹلہ جوگیاں کے بلند تالاب تک چار گھنٹے کا ٹریک کرکے گیا تھا مگر مجھے کچھ زیادہ جوگ حاصل نہ ہو سکا۔ کچھ نہیں بہت سی تشنگی تھی جو ابھی باقی تھی اور اسی تشنگی کو دور کرنے کے لیے میں ایک بار پھر ایک بلندی پر جا رہا تھا کہ میرا جوگی دور کہیں پہاڑ پر بسیرا کر کے بیٹھ گیا تھا اور نیچے آنے سے انکاری تھا، لہٰذا اب مجھے ہی اپنے جوگی کے پاس جانا تھا۔ نہ جانے وہ کونسا جوگی تھا جو چرخے کی گھوک سن کی پہاڑ سے نیچے اتر آیا تھا یا پھر میرے چرخے کی گھوک میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔

”جوگی اتر پہاڑوں آیا، چرخے دی گھوک سن کے”

جو بھی تھا، اب مجھے ہی جوگ کے واسطے تنہائی میں، بلندی پر اپنے جوگی کے پاس جانا تھا کہ پیاسا ہی ہمیشہ کنواں کے پاس جاتا ہے۔

معلوم نہیں کہ آپ مجھ سے متفق ہوں گے یا نہیں مگر میرا ماننا یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے سفر یا ٹریکس کسی خاص مقصد سے نہیں کرنا چاہییں۔ انسان کو اپنی زندگی میں بہت سے سفر اس لیے بھی کرنے چاہیں جن کا حاصل ”تنہائی ” ہو اور ذہن کی تسکین ہو۔ انسان کو زندگی میں ایسے بھی سفر کرنے چاہیں جو انسان کو نہ صرف تھکا دیں بلکہ اس حد تک توڑ دیں کہ آپ اپنی پچھلی تمام پریشانیاں بھول جائیں اور آپ کے سامنے وقتی طور پر ایک مقصد ہو کہ آپ نے بلندیوں پر پہنچنا ہے۔ ایک ایسی جگہ پہنچنا ہے جہاں بلندی بھی ہو اور تنہائی بھی۔ بلندی اور تنہائی، ان دونوں کو انسانی تاریخ میں ہمیشہ ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے، یہی حال کچھ میرا ہے۔ جب میرا اپنی شدید بے عزتی خراب کروانے کا دل کرتا ہے تو میں کسی ٹریک پر نکل جاتا ہوں، کیوںکہ چلا مجھ سے جاتا ہے نہیں اور آوارگی کے بنا رہا بھی نہیں جاتا۔ جو فاصلہ میرے ساتھی ایک گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔

اسے طے کرنے میں، میں کم از کم تین گھنٹے تو لگا ہی دیتا ہوں، مگر میری کسی سے ریس تھوڑی ہے، میری آنکھیں بھی منزل دیکھ ہی لیتی ہیں اور ان سب کی آنکھیں بھی۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ میرے ساتھیوں کی آنکھیں اپنی منزل جلد ہی دیکھ لیتی ہیں اور میری آنکھیں کچھ دیر کے بعد۔ ویسے اچھا ہے ناں، ان کا جو سفر دو گھنٹے میں ختم ہوتا ہے، اس سفر سے میں چار گھنٹے تک لطف اندوز ہوتا ہوں۔ نہ میں بدلا تھا اور نہ میرا ہم سفر۔ نیا بس اگر کچھ تھا تو وہ وہ صرف اور صرف ہمارا ٹریک تھا اور اس ٹریک پر چلتے چلتے ہم کہاں جا رہے تھے؟ ہم بلیجہ میڈوز جا رہے تھے جو کہ وادیِ سرن میں ہے۔

صبح صادق کے وقت مانسہرہ کی تاریک گلیوں میں سے ہوتے ہوئے میں اور حذیفہ جب مرکزی شاہراہ پر پہنچے تو ایک پٹھان نوجوان کچرے میں سے اپنا رزق تلاش کر رہا تھا۔ پیٹرول پمپ پر سب احباب کو اکھٹا ہونا تھا اور وہی پر سے ایک ہائی ایس کو ہمیں اٹھا کر عزت سے”چَھتر پلین” پھینک دینا تھا۔ ذرا دھیان سے پڑھیں، میں نے چَھتر کے ”چ” پر زبر لگائی ہے۔

حسبِ ضرورت آپ ”چ” پر زیر بھی لگا سکتے ہیں۔ بھلا ہو چینیوں کا جو خیبرپختونخواہ میں موٹروے کا جال بچھا رہے ہیں، ورنہ جو فاصلہ مانسہرہ سے چَھتر پلین کا اڑھائی کلو میٹر کا تھا، اب وہی فاصلہ چینیوں کی بدولت محض ایک گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے۔ مانسہرہ سے موٹر وے پر چڑھتے ہی آپ وادی سرن میں داخل ہو جاتے ہیں۔ میری طرح شاید آپ میں سے بھی بہت ساروں کے لیے یہ نام نیا ہو۔ وادی سرن میں ایک دریا بھی بہتا ہے جس کا نام وادی کے نام پر ہی ہے۔۔۔ دریائے سرن۔

جو لوگ ہزارہ موٹر وے پر سفر کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں ہزارہ موٹر وے سول انجنیئرنگ کا ایک شاہ کار ہے۔ حقیقی خالق نے بیش بہا خزانے جو پاکستان کو عطا کیے ہیں اس کا کروڑواں حصہ ستر سال بعد ہم ہزارہ موٹر وے کی صورت میں سامنے لائے ہیں۔ ہری پور انٹرچینج کراس کرتے جائیں تو ایک منظر آپ کے چار سو پھیلا نظر آتا ہے۔ وہ گاڑیاں جو جی ٹی روڈ پر چوں چراں چرک چرک کرتی ہیں وہ بھی انتہائی سبک خرامی سے موٹر وے پر سفر کرتی جاتی ہیں۔ یہ وہ خوب صورت موٹر وے ہے جہاں میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں گاڑی بھگانے کے بجائے چلانے میں زیادہ مزہ ہے۔ یعنی ایک سو بیس کے بجائے ساٹھ ستر کی اسپیڈ پر جائیں اور اللہ کی قدرت اور انعامات سے لطف اندوز ہوں۔

پہاڑوں پر سے برف پگھلنے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے نالے بنتے ہیں جنھیں مقامی زبان میں ”کَھٹے” کہا جاتا ہے۔ یہی کھٹے مل کر دریائے سرن کو ایک بڑا دریا بناتے ہیں۔ آپ ہائی وے پر آرام سے سفر کر رہے ہوتے ہیں کہ دائیں جانب ایک دم سے سڑک بلند ہوتی ہے اور آپ چھتر پلین کے علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں۔

ہماری پہلی منزل چَھتر پلین تھی جو کہ مانسہرہ سے تیس کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ عام دنوں میں یہاں تک پہنچنے کے لیے شاہراہ قراقرم پر چار سے پانچ گھنٹے درکار ہوتے ہیں لیکن ہزارہ موٹر وے نے یہ فاصلہ بھی سمیٹ کر ایک گھنٹہ پچیس منٹ کردیا ہے جب کہ اسلام آباد سے آپ ڈیڑھ گھنٹے میں بٹل کے ذاتی انٹرچینج تک پہنچ سکتے ہیں۔

بٹل انٹرچینج سے اترتے ساتھ ہی دائیں جانب ایک پکی سڑک اوپر کی جانب بڑھتی ہے جو ایک کلومیٹر مسلسل چڑھنے کے بعد شاہراہ ریشم سے جا ملتی ہے۔ مزید دو کلومیٹر سفر کے بعد آپ بٹل کے مین بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔ شاہراہ ریشم کے دونوں طرف تقریباً ایک کلومیٹر طویل بٹل بازار موجود ہے۔ یونین کونسل بٹل میں ہائی اسکول، سرکاری اسپتال اور دیگر ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ مین بازار جو پہاڑی علاقوں کے بازار جیسا ہی ہے اس میں بینک اور اے ٹی ایم کی سہولت بھی موجود ہیں، جب کہ بازار میں آدھی سے زیادہ دکانیں چپل کباب کی ہیں۔

چھتر پلین ایک چھوٹا مگر پیارا سا قصبہ ہے۔ ایک چھوٹا سا لاری اڈا بھی بنا ہوا ہے جو بس اتنا سا ہے کہ سڑک پر ہی چند گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں، آس پاس ایک دو ہوٹل ہیں اور باقی ایک عام سا بازار ہے۔ بس یہ چھتر پلین ہے۔

ہم صبح سات بجے کے آس پاس چھتر پلین میں تھے۔ ہائی ایس نے ہمیں ایک ہوٹل کے سامنے اتارا اور واپس چلی گئی۔ صبح کا وقت تھا تو ٹھنڈ یقینی تھی۔ سوئٹر اور جیکٹ کی وجہ سے ٹھنڈ کا احساس ذرا کم تھا۔

ہلکی پھلکی بھوک میں ہلکا پھلکا ٹک ہو یا نہ ہو، چائے تو لازمی ہوتی ہے۔ ویسے بھی صبح کا وقت تھ۔ تقریباً سب نے ہی ناشتہ نہیں کیا ہوا تھا اور ان سب میں خذیفہ کے کچھ قریب کے کزن شامل تھے اور کچھ دور کے۔ ہوٹل پر چائے پراٹھے کے ناشتے سے فارغ ہوئے تو کسی نے بلند آواز سے کہا کہ جیپ آ گئی۔ میں نے چائے کے ساتھ دو تین نوالے پراٹھے کے لیے، واش روم گیا اور جیپ میں کوئی مناسب سیٹ تلاش کرنے کے واسطے ہوٹل سے باہر آ گیا مگر مجھے جیپ دکھائی نہ دی۔ میں حیران پریشان سڑک پر کبھی دائیں دیکھ رہا تھا اور کبھی بائیں مگر جیپ نظر نہ آئی جب کہ اندر اعلان ہوچکا تھا کہ جیپ آ چکی ہے۔ نہ جانے کیا ماجرا تھا، یا تو جیپ واپس جا چکی تھی یا پھر میری نظر کم زور ہوگئی تھی۔  اتنے میں حذیفہ بھی باہر آ گیا۔

جیپ کہاں ہے؟

پتا نہیں۔

حذیفہ کے ایک دور کے کزن نے آواز لگائی، ”بیٹھو سارے اندر” اور ایک چھوٹے سے ڈالے کی طرف اشارہ کردیا جسے بعد میں ہم نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا۔ میرے منہ سے ایک دم نکلا:

یہ جیپ ہے؟

حذیفہ مجھے چٹکی دیتے ہوئے بولا

”جو بھی ہے، چپ کر کے اس میں بیٹھ جاؤ۔ ”

اس چھوٹے سے ڈالے میں لوہے کی سیٹس لگی تھیں، وہ بھی اتنی چھوٹی کہ آپ کی سیٹ بھی اس پر پوری نہ آئے گی۔ بمشکل اس پر بیٹھ سکیں۔

چَھتر پلین سے ڈالا نما جیپ چلی تو میں بھی باقی سب کے ساتھ شوخا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ چھتر پلین سے آگے ساری سڑک سلیب سے بنی ہوئی ہے اور زیادہ تر ٹوٹی ہوئی ہے۔ ہلکے پھلکے جھٹکے تو آ رہے تھے مگر ساتھ تھوڑا تھوڑا مزہ بھی آ رہا تھا۔ تقریباً بیس پچیس منٹ کی مسافت کے بعد گاڑی نے ایک دم بائیں جانب مڑی اور بریک لگا دی۔ یہ ایک کچا ٹریک تھا۔

مٹی اور پتھروں سے بنا ہوا۔ یہ ”بالی منگ” کا علاقہ تھا۔ سڑک کنارے ایک دو کریانے کی دکان تھی۔ جس کچے اور مسلسل چڑھائی والے راستے پر ابھی گاڑی کھڑی تھی، وہاں سے مسلسل اونچی ہوتی ہوئی سڑک کو دیکھ کر بھی سب کو خوف آ رہا تھا۔ کم از کم مجھے تو آ ہی رہا تھا۔ سب لوگ آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے کہ آیا گاڑی اسی کچی اور مسلسل بلند ہوتی ہوئی سڑک پر چلے گی یا واپس پکے راستے پر آ جائے گی۔ کچھ دیر کے بعد کنفرم ہوگیا کہ ہماری منزل اسی راستے کے پتھروں پر چل کر آئے گی۔

دوآدمی ایک عدد شکاری کتے کے ساتھ گاڑی کے پاس آ گئے۔ معلوم پڑا کہ کتا اور اس کا مالک بھی ہمارے ساتھ ہی اوپر جائیں گے۔ دو نوںآدمی مقامی تھے اور شکار کی غرض سے اوپر جنگلوں میں جا رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ اوپر کے جنگلات میں جنگلی خرگوش اور بہت سے حلال جانوروں کی بہتات ہے۔ ہم ابھی تک اردو والا سفر کر رہے تھے۔ اب آگے انگریزی والا سفر شروع ہونے والا تھا۔ ڈالا نما جیپ چلی تو میں نے اپنے دل کو تھام لیا۔ سڑک پر صرف ایک ہی گاڑی کے چلنے کی گنجائش تھی۔ راستہ اس قدر خراب تھا کہ ہماری جیپ میں سوار وہ کتا بھی دبک کر بیٹھ گیا۔

راستہ مسلسل بلند ہو رہا تھا۔ بعض موڑ اس قدر تنگ تھے کہ گاڑی مڑتے وقت رکتی، آہستہ آہستہ پیچھے کی جانب سرکتی پھر مڑتی تھی۔ تقریباً سبھی لوگ ڈر تو رہے تھے مگر کھڑے ہو کر اس راستے کے مزے بھی لے رہےتھے۔ میں ایک کونے میں دبک کر بیٹھا ہوا تھا بلکہ شدید دبک کر بیٹھا ہوا تھا، دل ہی دل میں اس وقت کو کوس بھی رہا تھا جب میں نے خذیفہ سے ہاں کہاں تھا کہ میں اس کے ساتھ بلیجہ میڈوز جاؤں گا۔ میں پورے جیپ ٹریک میں خاموش بیٹھا رہا۔ سب لوگ ہی میرا ہلکا پھلکا مذاق بنا رہے تھے۔ کوئی مجھے ”پنجاب کی بلبل” کہہ رہا تھا تو کوئی کچھ۔ میری عافیت اسی میں تھی کہ میں اس شدید برے راستے پر چپ کر کے بیٹھا رہوں۔

یک دم ہمارے جیپ نما ڈالے نے بریک لگا دی۔ میرا دل ایک دم دھڑکا کہ شاید گاڑی خراب ہو گئی ہے مگر یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جیپ ٹریک ختم ہوچکا ہے اور اب ”ہم ہیں اور ہماری ٹانگیں ہیں دوستو!”، یعنی کہ اب ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت چڑھائی چڑھنا تھی۔ گاڑی سے سامان اتارا گیا۔ کسی غریب کے پاسsunscreen  تھی، اس نے کسی کو ایک کو لگانے کے لیے دی اور پھر آگے یہ سلسلہ چلتا گیا۔ چوںکہ مفت کا مال تھا، اس لیے سب جی بھر کی اس مال سے لطف اندوز ہوتے گئے۔ اب آئینہ تو سامنے تھا نہیں۔ میں نے مفت کے چکر میں کچھ زیادہ ہی ٹیوب دبا دی۔ مجوراً وہ ساری چہرے پر لگانا بھی پڑی۔ جب مفت کیsunscreen  ملے تو ایسے ہی لگائی جاتی ہے بلکہ مَلی جاتی ہے۔ یہ تو کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا۔

جب بھی پہاڑی علاقوں میں جائیں،sunscreen  ضرور استعمال کریں. چونکہ ہم میں سے اکثر و بیشتر کے پاس عام سے sunscreen ہی ہوتی ہے (عام سی سے مراد ہے دو اڑھائی سو روپے والی) جو اتنی جلدی جِلد میں جذب نہیں ہوتی، اسے ایک دم زیادہ مت لگائیں۔ تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد لگاتے رہیں تاکہ وہ زیادہ نمایاں بھی نہ ہو اور جلد کی حفاظت بھی ہوتی رہے۔Sunscreen نہ لگانے کی صورت میں آپ کی جلد جلنے کے 100% امکانات موجود ہیں۔

ہمیں ٹریک کے شروع ہوتے ہی ایک گاؤں میں سے گزرنا تھا۔ حالاںکہ ابھی ہمارا ٹریک شروع ہی ہوا تھا اور کوئی خاص پیاس بھی نہ لگی تھی مگر انتہائی خوش اخلاق لوگوں نے ہمیں زبردستی روک لیا اور سادہ پانی پیش کیا۔ یہ یقیناً ان کی سادگی اور خوش اخلاقی تھی۔ ہم سب نے تھوڑا تھوڑا پانی پیا اور پھر بلندی کی جانب چلنے لگے۔ میرے یہاں ”چلنے ” سے آپ یہ ہرگز مت سمجھیے گا کہ ہمیں ویسے ہی چلنا ہے جیسے عام اپنے گھروں یا گلی محلوں میں چلتے ہیں بلکہ یہاں لفظ ”چڑھنا” زیادہ مناسب رہے گا کہ ہم آہستہ آہستہ بلندی پر چڑھنے لگے۔

میں نے دو سال پہلے جھیل دودھی پت کی جانب ایک ٹریک کیا تھا۔ ٹریک تقریباً نو گھنٹے کا تھا جس کے آغاز پر تو اچھی خاصی چڑھائی تھی مگر تقریباً آدھا ٹریک مکمل کرنے کے بعد راستہ بالکل سیدھا ہو گیا تھا۔ پچھلے سال جو ٹلہ جوگیاں کا ٹریک کیا تھا، وہ بھی تقریباً آدھے سفر کے بعد بالکل سیدھا ہو گیا تھا مگر بلیجہ کو جاتا ہوا راستہ بالکل منفرد قسم کا تھا جو ہمارے مسلسل چلنے کے باوجود بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا تھا مگر سیدھا نہیں ہو رہا تھا۔

ہم ایک پہاڑی پر چڑھتے تھے اور یہ امید لگائے رکھتے تھے کہ اس پہاڑی کے بعد راستہ سیدھا ہوجائے گا مگر ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد ایک دوسری پہاڑی ہماری منتظر ہوتی تھی۔ ہماری ٹیم میں صرف میں ہی میدانی علاقے سے تھا جب کہ باقی سب پہاڑی لوگ تھے، اسی لیے میں سب سے آخر میں تھا اور ہانپ ہانپ کر چل رہا تھا۔ حذیفہ کی مجبوری تھی کہ وہ میرے ساتھ ساتھ چلے۔ وہ میرا دوست جو ٹھہرا۔ شاید وہ دنیا کا واحد دوست ہے جو پہاڑوں پر میرا بوجھ اٹھالیتا تھا ورنہ پہاڑوں میں کوئی بھی دوسروں کا ایک تنکے کے برابر بھی بوجھ نہیں اٹھاتا۔ اس بوجھ میں یقیناً بہت سی محبت شامل تھی تبھی تو وہ میرا سارا سامان بھی اٹھا لیتا تھا ورنہ اگر محبت نہ ہو تو ایک تنکے کا بوجھ بھی ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔

میرے خیال میں بلندیوں پر دو طرح کے لوگ جاتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں واقعی پہاڑ بلاتے ہیں۔ جن کے لیے ٹریک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وہ پہاڑوں کی طرف سے آنے والی ہلکی پھلکی مس کال پر بھی ایک اچھا خاصا ٹریک مکمل کرکے آ جاتے ہیں۔ دوسرے وہ جنھیں پہاڑ منہ بھی نہیں لگاتے بلکہ پہاڑ ہاتھ جوڑ کر کہہ دیتے ہیں ”تیری مہربانی، ایتھے نہ آں ویں۔” دوسری قسم کے لوگ حاسد قسم کے ہوتے ہیں۔

دوسروں کی سیاحت سے اس قدر حاسد ہوتے ہیں کہ اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر، دوسروں کی فوٹوگرافی دیکھ کر کہتے ہیں کہ ”یہ ٹریک تو بس حلوہ ہے ” مگر جب وہ خود ٹریک پر ہوتے ہیں تو سارا الزام اپنے خاص جراثیم کو دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر تب تک جراثیم صاحب خود مشوم بن کر پتلی گلی سے نکل چکے ہوتے ہیں۔ نہ تو انھیں پہاڑوں سے کوئی عشق ٹائپ چیز ہوتی ہے اور نہ ہی انھیں کوئی خاص قسم کی سیاحت کا شوق ہوتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو ایک قسم کا جرثومہ تنگ کرتا ہے جو کسی بھی خالص سیاح کو دیکھ کر جاگ اٹھتا ہے۔

بلندی پر جاتے ہوئے دو چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ آپ کا بلڈ پریشر (دل کی دھڑکن) + آپ کا شوگر لیول۔ بلندی پر جاتے ہوئے کچھ نہ کچھ میٹھا تھوڑی دیر بعد کھاتے بھی رہیں اور پیتے بھی رہیں۔

اگر آپ میری طرح بس کبھی کبھار شوقیہ طور پر پہاڑوں پر جاتے ہیں تو پھر اپنے دل کی دھڑکن کا خاص خیال رکھیں۔ مسلسل مگر چھوٹے قدم اٹھائیں اور جہاں آپ کو دھڑکن قابو سے باہر ہوتی محسوس ہو، تو وہیں استراحت فرمالیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں جگہ جگہ آرام کرنے لگتا لیٹ جاتا ہوں۔ ہون بندہ استراحت وی نہ کرے۔

ٹریک اور آپ کی ٹیم جائے بھاڑ میں۔ ٹریک تو بعد میں بھی ہوتا رہے گا مگر اپنے دل کے معاملات ہمیشہ پہلے حل کریں۔ آرام کرنے کے بعد جونہی دل صاحب ذرا قابو میں آئیں، پھر سے ٹریک پر چلنا شروع کردیں۔ اپنے ساتھ زبردستی بالکل بھی مت کریں۔ تھوڑی دیر سے ہی سہی، آپ منزل پر پہنچ ہی جائیں گے اور نہ بھی پہنچ سکیں تو خیر ہے، منزل دیکھ کر دوسروں نے کون سا معرکہ سر کر لیا تھا، جو آپ کا رہ گیا ہے۔

ہم شہر والوں کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ پہاڑی علاقے کے رہنے والے آج بھی ایک بہت ہی مختلف زندگی گزار رہے ہیں۔ پہاڑی لوگوں کا رہن سہن، کھانا پینا، سفر سب ہم سے مختلف ہے۔ واپسی کے سفر میں ہمیں بہت سے لوگ ملے جو اوپر کے جنگلات سے لکڑیاں چن کر لا رہے تھے۔

زیادہ تر افراد کے پاس گدھا تھا۔ خاندان کے دو افراد ایک گدھے کے ساتھ صبح سویرے اٹھ کر اوپر جنگل جاتے ہیں اور پھر لکڑیاں کاٹ کر، گدھے پر رکھ کر واپس گاؤں آ جاتے ہیں۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ ایک گدھے پر زیادہ سے زیادہ کتنی لکڑیاں آ سکتی تھیں۔ دو نوجوانوں سے میں نے واپسی پر پوچھا بھی کہ یہ لکڑیاں زیادہ سے زیادہ کتنے دن چل جاتی ہیں تو کہنے لگے صرف دو دن۔ دو دونوں کے بعد خاندان کا کوئی اور فرد گدھے کے ہم راہ اوپر جنگل میں جاتا ہے اور لکڑیاں چن کر لاتا ہے۔ یہ تقریباً ان کے اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ تو گویا گدھا پہاڑی گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے گھر کا ایک فرد ہے۔

ہمارے سفر بھی پہاڑی علاقے کے گاؤں کے افراد کے سفر سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سفر کا تصور یہ ہے کہ گاڑی میں بیٹھے اور اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے لیکن پہاڑی علاقوں اور خاص کر پہاڑی گاؤں میں سفر کا تصور بالکل مختلف ہے۔ ہمارے واپسی کے سفر میں ہمیں ایک لڑکا مہروز ملا کہ جب واپسی پر آتے ہوئے ہم تھک کر ایک جگہ آرام کے لیے بیٹھ گئے تو دو نوجوان نظر آئے جو آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے یہاں لائے تھے۔ ان میں سے ایک جس کا نام مہروز تھا، نے ہمیں سامنے نظر آنے والے تمام پہاڑوں کے بارے بڑی تفصیل سے بتایا۔

مہروز بتا رہا تھا کہ وہ ہر سال اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ وادی کاغان کی طرف جاتا ہے اور ناران تک پہنچتے ہوئے انھیں کم و بیش چار دن لگ جاتے ہیں۔ بلیجہ میڈوز کو پار کرکے وادی کاغان شروع ہوجاتی ہے۔ تھوڑی بہت خوراک ساتھ رکھی جاتی ہے اور ایک خیمہ ساتھ ہوتا ہے۔ پہاڑ پر جہاں انھیں رات پڑتی ہے، وہی خیمہ لگا کر رات گزاری جاتی ہے۔

بقول مہروز سڑک سے جانوروں کے ساتھ سفر کرنا ان کے لیے بہت مہنگا سودا ہے۔ جانوروں کے ساتھ سفری لاگت اتنی پڑتی ہے کہ ان کی جیب پر اچھا خاصا وزن پڑ جاتا ہے۔ پہاڑی لوگ ویسے بھی پہاڑوں پر سفر کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور ان کا کام ہی یہی ہے پہاڑوں کے ذریعے جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، لہٰذا ابھی انھیں اب عادت ہو چکی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ان کے لیے پہاڑوں پر سفر کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت سڑک کے بالکل ایسے ہی جیسے ہمیں سڑک پر چلنے کی ہمیں عادت ہو چکی ہے اور پہاڑوں پر ذرا سا چلنے سے ہمارا سانس پھولنے لگتا ہے۔

میں نے اپنی زندگی میں جتنے بھی چند ایک ٹریکس یا چراگاہیں دیکھی ہیں، ان میں بلیجہ میڈوز اور اس کا ٹریک سب سے مختلف تھا۔ عام طور پر چراگاہ سرسبز ہوتی ہے۔ یہ ٹریک سرسبز تو تھا مگر اتنا نہیں تھا جتنا عام طور پر کسی میڈوز کے ٹریک ہوتے ہیں۔ برف پگھلنے کی وجہ سے مٹی پر جگہ جگہ کیچڑ تھا اور گھاس بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔

راستے میں آنے والے گاؤں کے مکانات بے شک کچے تھے مگر مساجد پکی بنی ہوئی تھی، جس سے آپ بہ خوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان علاقوں کے لوگوں کا ایمان کس قدر مضبوط ہے۔

بلیجہ میڈوز جاتے ہوئے ٹریک کے شروع شروع میں کچھ گاؤں آتے ہیں جہاں آبادی ہے اور لوگ خوش و خرم رہتے ہیں مگر بلندی پر جا کر ایک گاؤں ایسا بھی آیا جہاں گھر تو موجود تھے مگر مکین نہیں تھے۔ گھروں کے دروازے کھلے تھے۔ دروازے پر تالا تو لگا تھا مگر ساتھ میں چابی بھی رکھی تھی کہ اگر کوئی مسافر رات قیام کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ نیچے گاؤں میں رہنے والے گرمیوں کے موسم میں بلندی پر اس گاؤں میں آ جاتے ہیں اور سردیاں شروع ہوتے ہی نیچے گاؤں میں چلے جاتے ہیں۔

مٹی سے لیپ کیے ہوئے گھر کس قدر پیارے تھے۔ ہر گھر کے باہر ایک چھوٹا سا کچن بنا تھا۔ گھر ساتھ ساتھ نہیں تھے بلکہ اوپر نیچے بنے تھے. پہلے گھر کی چھت اس سے اوپر والے گھر کا صحن تھا۔ کمرے کے دیوار کے ساتھ ہی مٹی سے ایک صوفہ بھی بنا ہوا تھا جو نیچے سے مرغیوں کا ڈربا اور اوپر بیٹھنے کی جگہ تھی۔

کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ انسان کم از کم دو دن اور ایک رات کے لیے پہاڑی گاؤں میں چلا جائے جہاں چاروں سُو خاموشی ہو، سکون ہو۔ ذرا سوچیں کہ رات کو کیسا سماں ہو گا۔ آسمان خالص چاندنی میں نہایا ہو، آپ کے اردگرد کسی بھی قسم کا کوئی شور نہ ہو۔ یہاں تک کہ آپ کے کمرے میں بجلی تک نہ ہو۔ مٹی سے بنے طاقچے میں دیا جل رہا ہو اور آپ اپنے من پسند شخص کے ساتھ لحاف میں دُبکے گپیں ہانک رہے ہو۔ ہاں ہاتھ میں چائے کی پیالی تو ہونی ہی چاہیے۔ ایسی جگہوں پر چائے بنانا بھی ایک الگ ہی قسم کا رومان ہوتا ہے، کسی گھر کے باہر جب کہ آپ کچھ کچھ کانپ بھی رہے ہوں مگر آپ کے سامنے مٹی سے بنے چولہے پر چائے ابل رہی ہو۔

اس مٹی سے بنے دو سیٹوں والے صوفے پر آپ اپنے پسندیدہ شخص کے ساتھ بیٹھے ہوں۔ نیچے کے گھر کی چمنی سے دھواں اٹھ کر آپ کے سامنے سے گزر رہا ہو، چاندنی رات ہو، ٹھنڈ ہو، ہاتھوں میں چائے کے دو کپ ہوں اور آپ دونوں نے ایک ہی شال اوڑھ رکھی ہو۔

پہاڑی گاؤں کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔ تمام گھروں کی چھت بڑی رنگین سی ہوتی ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ پہاڑی گاؤں میں چھت ہمیشہ ٹین کی ہوتی ہے اور وہ بھی ایک خاص ڈھلوان کے ساتھ، تاکہ جب بھی برف باری ہو تو وہ آسانی کے ساتھ خود ہی نیچے آ جائے یا جو تھوڑی بہت رہ جائے وہ آسانی سے نیچے گرائی جا سکے۔

یہ رنگین چھتیں یقیناً ان لوگوں کے اچھے ذوق کی علامت ہیں اور دیکھنے میں بھی بھلی لگتی ہیں۔ کالام میں دریائے سوات کے کنارے، وادی کمراٹ اور بہت سی جگہوں پر بھی ٹین سے رنگ برنگے huts  بنے ہوئے ہیں۔ ناران شہر میں بھی بہت سی چھتیں انہیں رنگ برنگے ٹین سے بنی ہیں (ٹین ایک ہی قسم کا ہوتا ہے، ان پر صرف پینٹ الگ الگ کیا جاتا ہے)۔ ناران شہر کی طرف جاتے ہوئے آخری بلندی سے اترائی پر اتریں تو سامنے پہلا خوب صورت منظر ناران شہر کی انہی رنگ برنگی چھتوں کی صورت میں آپ کو ملتا ہے۔

ہر شخص کا اپنا اپنا ایک الگ تجربہ ہوتا ہے۔ ایک درویش کا دنیا کو دیکھنے کا نظریہ بالکل الگ ہوتا ہے جب کہ ایک عام آدمی کا بالکل الگ۔ ایک شریف زادی اس طرح سے سوچ ہی نہیں سکتی، دنیا کو اس نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتی جس نظر سے کوئی طوائف اس دنیا کو جانچتی ہے۔ بالکل اسی طرح آوارگی کا تجربہ بالکل الگ چیز ہے۔

پہاڑوں پر آوارگی کرنے والے کے تجربے میں وہ مختلف اقسام کے پھول آتے ہیں جن کے بارے میں ایک عام میدانی علاقے میں رہنے والا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمیں پہاڑوں پر جا کر معلوم ہوتا ہے کہ ہوا کہ بھی آواز ہوتی ہے، نہ صرف آواز ہوتی ہے بلکہ درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں میں سے گزر کر جب ہوا آپ کے کانوں میں سرایت کرتی ہے تو آپ پر ایک خاص قسم کا خمار طاری ہو جاتا ہے۔ آپ ایسے ایسے پرندوں کی بولیاں سنتے ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ نیشیاپور کو جاتے ہوئے یہ عطار کے وہ پرندے ہیں جو اپنے حق اور سچ کی تلاش میں ہیں۔

نہ جانے آپ مجھ سے اتفاق کریں گے یا نہیں مگر میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ پہاڑوں پر چلنے سے جہاں آپ کا مشاہدہ اور تجربہ دوسروں سے مختلف ہوجاتا ہے وہی آپ کی نگاہ وہ سب کچھ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے جو لاشعور میں ہوتا ہے۔

عام طور پر پہاڑوں میں ہر ٹریک پر چلنے والوں کے تین گروپ بن جاتے ہیں۔ ایک وہ جو بہت تیز چلتے ہیں۔ دوسرے وہ جن کی رفتار نارمل ہوتی ہے۔ تیسرے وہ جو سب سے سست ہوتے ہیں۔ نہ صرف سست ہوتے ہیں بلکہ ہر پانچ منٹ کی چڑھائی کے بعد کسی درخت کے نیچے استراحت فرمانا اپنے لیے فرض جانتے ہیں۔ ان تین گروپس کے بعد اکثر ایک چوتھا گروپ بھی بن جاتا ہے، جو سب سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔

میں چوںکہ شدید سست آدمی ہوں اور یہ اقرار بھی کرتا ہوں کہ میں ایک انتہائی سست رفتار سے پہاڑوں پر چلتا ہوں مگر منزل پر پہنچتا ہوں تو مجھے چلانے کا ہنر بھی بس خذیفہ ہی کے پاس ہے۔ خذیفہ کھانے پینے کا سامان ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھتا ہے۔ میں جب بھی اسے کسی جگہ آرام کرنے کا کہتا ہوں تو اس کا جواب یہی ہوتا ہے، ”وہ سامنے والا درخت دیکھ رہے ہو ناں، بس وہاں تک چلو، پھر تمھیں ایک ٹافی دوں گا۔” پہاڑوں پر میٹھا آپ کو کا قدر چارج کرتا ہے، یہ کبھی پہاڑوں پر جا کر دیکھیں۔

ٹریک پر چلتے چلتے ایک منحوس چڑھائی ایسی بھی آئی کہ اس پر سیدھا چلنا ممکن نہیں تھا۔ ڈھلوان اس قدر تھی کہ سیدھا کھڑا ہوا بھی نہ جا سکتا تھا۔ ایسی جگہوں پر یقیناً بچوں کی طرح رینگ کر ہی چلا جاتا ہے۔

کم و بیش پانچ گھنٹے کی چڑھائی کے بعد ہمیں بلیجہ کی چوٹی نظر آنے لگی جو مکمل طور پر برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ایک پہاڑی سے نیچے انتہائی کم درجے کی ڈھلوان نیچے اتر رہی تھی۔ مشکل بات یہ تھی کہ یہاں سے آگے کا راستہ مکمل طور پر نہ صرف برف سے ڈھکا ہوا تھا بلکہ تین چار فٹ تک پاؤں برف میں دھنس رہا تھا۔ میں ٹھہرا شہری بابو، مجھ سے کہاں برف میں چلا جانا تھا جب کہ بلیجہ کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے ابھی مزید تین سے چار گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ میں نے اپنی ٹیم کے باقی ارکان کو آگے جانے کا کہا اور خود وہیں برف کنارے خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگا۔ میرے لیے یہی بہت تھا کہ میری آنکھوں نے بلیجہ کی برف پوش چوٹی کو اتنے قریب سے دیکھ لیا تھا۔

The post مکانوں پر تالے پڑے تھے اور باہر چابیاں رکھی تھیں appeared first on ایکسپریس اردو.



source https://www.express.pk/story/2188686/1
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post