آپ کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر چند لمحوں کے لیے اپنے آپ سے دو سوال پوچھیں‘ ہو سکتا ہے آپ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں ہم ایک محسن کش قوم ہیں‘ ہم پر جو بھی شخص مہربانی یا احسان کرتا ہے ہم اسے جوتے مار کر اس احسان‘ اس مہربانی کا بدلہ اتارتے ہیں اور دوسرا ہم ’’اینٹی پراگریس‘‘ ہیں‘ ہم میں سے جو بھی شخص ترقی کر جاتا ہے یا وہ دائیں بائیں موجود لوگوں کو ترقی کی راہ پر ڈال دیتا ہے وہ ہماری نظر میں مجرم ہو جاتا ہے۔
آپ جب ان دونوں سوالوں کا جواب تلاش کر لیں تو پھر آپ تیسرے سوال کا جواب تلاش کر لیجیے گا اور وہ سوال ہے یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا؟ ہم کب تک ترقی کرنے اور ترقی دینے والوں کو مجرم سمجھتے رہیں گے اور ہم کب تک احسان کرنے والوں کو عبرت کا نشانہ بناتے رہیں گے؟۔
میں اگر یہ کہوں ملک ریاض پاکستان کے ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن میں یہ دونوں خامیاں موجود ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ یہ وہ شخص ہے جس نے ملک میں رئیل اسٹیٹ کو باقاعدہ انڈسٹری بنایا‘ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو لائف اسٹائل دیا اور ملک کی 60 انڈسٹریز چلائیں اور دوسرا یہ وہ شخص ہے جو چند سو روپے کی ٹھیکے داری سے اٹھا اور ملک کا سب سے امیر شخص بنا اور یہ دونوں اس کے ناقابل معافی جرم ہیں۔
میں اس شخص کا فین ہوں‘ میں نے اس فین شپ میں بے تحاشا نقصان اٹھایا‘ مجھے گالیاں بھی پڑیں اور مجھے اس کا ملازم اور بینی فیشری بھی قرار دیا گیا اور میرے خلاف تحقیقات بھی ہوئیں لیکن میں کل باز آیا‘ آج باز آ رہا ہوں اور نہ کل باز آؤں گا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں کم از کم احسان فراموشوں اور ترقی کو جوتے مارنے والوں میں شامل نہیں ہونا چاہتا لہٰذا میں ایک بار پھر یہ سوال کرتا ہوں آخر اس شخص کا جرم کیا ہے؟ اور یہ 26 سال سے عدالتوں‘ تھانوں اور سڑکوں پر ذلیل کیوں ہو رہا ہے؟‘ اس کی عزت اور صحت تک برباد ہو گئی لیکن یہ اس کے باوجود روزانہ 18 گھنٹے کام کرتا ہے اور آپ اس پر کوئی بھی پابندی لگا دیں۔
آپ اس کی پراپرٹی جلا دیں‘ اس کے راستے بند کر دیں اور آپ اسے فرش پر بٹھا کر اس کے کندھے پر سٹک رکھ دیں لیکن یہ اس کے باوجود کام کرتا ہے اور پہلے سے زیادہ ڈیلیور کرتا ہے‘ میرا ملک ریاض سے 26 سال پرانا تعلق ہے لیکن کل میں نے اس شخص کو پہلی بار پریشان دیکھا‘ اس نے مجھے فون کیا اور کہا ’’میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے یہاں تک نہیں آنا چاہیے تھا‘ میری ضرورتیں آج سے چالیس سال پہلے پوری ہو گئی تھیں‘ میں خوش حال اور مطمئن تھا‘ مجھے چاہیے تھا میں وہاں رک جاتا‘ بچوں اور ان کے بچوں کو انجوائے کرتا اور مزے سے زندگی گزارتا‘ مجھے آگے سے آگے بڑھنے اور دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ ملک ریاض کا کہنا تھا ’’کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے دائیں بائیں 39 ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں‘ تمام ہاؤسنگ اسکیموں نے 1974ء سے 2018ء تک ایک ہی قانون کے تحت زمینیں خریدیں‘ ریاست 38 کو نہیں پوچھ رہی لیکن مجھ پر چٹان پر چٹان گرائی جا رہی ہے۔
میں نے کون سا ایسا قانون توڑ دیا اور دوسروں نے کیا کمال کر دیا؟ کیا میرا جرم صرف اتنا ہے میں نے بنا دیا‘ میں نے ڈیلیور کر دیا اور دوسرے سڑکیں تک نہیں بنا سکے‘‘ میں نے ان سے کہا ’’آپ لوگوں کی زمینوں پر کیوں قبضہ کر رہے ہیں‘ لوگ اپنی ملکیت نہیں چھوڑنا چاہتے‘ آپ انھیں کیوں بے دخل کر رہے ہیں؟‘‘ یہ فوراً بولے ’’ صرف میں نہیں ہوں‘ 39 ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں‘ان سب نے زمینیں خریدیں اور قبضے لیے لیکن احتجاج اور حملے صرف مجھ پر ہو رہے ہیں۔
باقی 38 سے کیوں نہیں پوچھا جا رہا؟ ہم نے اگر غلطی کی تو آپ تمام ہاؤسنگ اسکیموں کی زمینیں کینسل کر دیں‘ سب بند کر دیں‘ آپ دوسری ہاؤسنگ اسکیموں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے مجھے کیوں ٹارگٹ کر رہے ہیں؟ دوسرا یہ سارا علاقہ ویران تھا‘ یہاں پانی تھا‘ سڑک تھی‘ اسپتال تھا اور نہ ہی اسکول تھا‘ میں نے وہاں یہ ساری سہولیات پہنچائیں۔
لوگ کل تک گدھوں پر پانی ڈھو کر لاتے تھے‘ آج وہاں پانی بھی ہے اور لوگ گاڑیوں اور بنگلوں کے مالک بھی ہیں‘ ہم وہاں گئے تو یہ زمینیں مہنگی ہوئیں‘ ہم نہ جاتے تو آج بھی یہ زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ بکتیں‘ آپ ہم سے آدھ کلو میٹر دائیں بائیں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ریت اور بٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا‘ کل ہم اس جگہ کو بھی ڈویلپ کر لیں گے تو کل وہاں کے لوگ بھی ہم پر حملے شروع کر دیں گے‘‘۔
میں ہرگز ہرگز یہ نہیں کہتا ملک ریاض درست کہہ رہے ہیں‘ یہ ہو سکتا ہے غلط ہوں لیکن سوال یہ ہے ہم اس ملک میں ایک ہی بار فیصلے کیوں نہیں کر لیتے؟ ہاؤسنگ اگر حکومت یا ریاست اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے تو یہ پرائیویٹ کمپنیوں کو بین کر دے اور خود بنائے اور خود چلائے اور اگر یہ حکومت کے بس کی بات نہیں تو پھر یہ سسٹم بنا دے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو برابر مواقع فراہم کر دے‘ کمپنیاں آئیں‘ اپنی اسکیمیں شروع کریں اور لوگوں کو پلاٹس اور گھر ڈیلیور کریں اور جو کمپنی وقت پر ترقیاتی کام پورے نہ کرے یا اپنے گاہکوں کے ساتھ وعدے پورے نہ کرے تو ریاست درمیان میں آ جائے اور عوام کے حق میں فیصلہ دے دے تاہم کسی گروپ یا کسی جتھے کو کسی کی پراپرٹی پر حملے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
کیا یہ ظلم نہیں گستاخی فرانس میں ہوتی ہے اور لوگ یہاںعام لوگوں کی گاڑیوں‘ گھروں اور دکانوں پر حملے کر دیتے ہیں یا سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اٹھاتے ہیں اور عام لوگوں کی اربوں روپے کی پراپرٹیز کو آگ لگا دیتے ہیں اور ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ آپ کو میاں جاوید لطیف یاد ہوں گے‘ یہ کس بات کی سزا بھگت رہے ہیں‘ انھوں نے 12 مارچ کوٹیلی ویژن شو میں کہا تھا’’ اگر خدانخواستہ مریم نواز شریف کو کچھ ہوا تو ہم پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے‘‘ یہ آج غداری کے کیس میں جیل میں ہیں لیکن چھ جون کو سارا دن ہجوم پلازے جلاتا‘ شیشے توڑتا اور گاڑیوں کو آگ لگاتا اور ’’پاکستان نہ کھپے‘‘ کے نعرے لگاتا رہا لیکن ہم خاموش بیٹھے رہے۔
کیوں؟ آخر کیوں؟ کیا ترقی کرنا‘ پراجیکٹس بنانا‘ ڈویلپ کرنا ‘ لوگوں کا لائف اسٹائل امپروو کرنااور دوسرے صوبوں میں کام کرنا اتنا بڑا جرم ہے؟ لوگ آئیں اور چند لمحوں میں لوگوں کی عمر بھر کی کمائی برباد کر کے گھر چلے جائیں اور ریاست تماشائی بن کر دیکھتی رہے‘ کیا ملک ریاض جیسے لوگوں کو کام نہیں کرنا چاہیے؟ آپ یقین کریں یہ شخص اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو یہ آج بل گیٹس کی طرح سیلے بریٹی ہوتا لیکن ہم نے اسے اس ملک میں گبر سنگھ بنا دیا ہے‘ یہ مندر کا گھنٹہ بن کر رہ گیا ہے‘ ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے اسے بجانا شروع کر دیتی ہے اور نقصان عام آدمی کا ہوتا ہے‘ سپریم کورٹ نے 2018ء میں جب بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف سوموٹو لیا تھا تو آپ ملک میں رئیل اسٹیٹ کی پراگریس دیکھ لیں۔
کراچی میں نیا شہر بن رہا تھا اور لوگ دہشت‘ اسٹریٹ کرائمز اور کچرے سے نکل کر صاف ستھرے ماحول میں آباد ہو رہے تھے‘ کراچی کی معاشی سرگرمیوں میں بھی کرنٹ دوڑ رہا تھا لیکن سپریم کورٹ کی کارروائی سے رئیل اسٹیٹ کی ساری مارکیٹ کریش کر گئی اور لوگوں کے کھربوں روپے ڈوب گئے‘ حکومت آج ایڑی چوٹی کا زور لگا کراور تین تین ایمنسٹی اسکیمیں دے کر بھی اس مارکیٹ کو زندہ نہیں کر پا رہی‘ ہم نے آخر اس انصاف‘ اس احتساب سے کیا حاصل کر لیا؟ اربوں روپے کا ٹیکس گیا‘ لوگوں کی کھربوں روپے کی جمع پونجی گئی اور معاشی سرگرمیوں کو ریورس گیئر لگ گیا۔
کیا یہ عقل مندی تھی؟ہم ایک طرف دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں‘ ہم اوورسیز پاکستانیوں کو بھی تحریک دیتے ہیں آپ آئیں اور اپنے ملک میں سرمایہ کاری کریں لیکن دوسری طرف جو لوگ سرمایہ کاری کر لیتے ہیں‘ ہجوم ان کی پراپرٹی ڈنڈوں سے کچل دیتا ہے اور ریاست چوں بھی نہیں کرتی‘ ہم ایک طرف لوگوں سے کہتے ہیں آپ کام کریں‘ آپ سرمایہ کاری کریں اور دوسری طرف جو لوگ اپنی جمع پونجی لگا بیٹھتے ہیں‘ جو کام کر لیتے ہیں ہم انھیں عدالتوں‘ تھانوں اور جیلوں میں ذلیل کر کے رکھ دیتے ہیں اور اگرڈیلیور کرنے والے اس کے بعد بھی سروائیو کر جائیں تو ہم انھیں اس طرح ہجوم کے حوالے کر دیتے ہیں‘ لوگ آتے ہیں‘ گالیاں دیتے ہیں۔
ڈنڈوں سے عمارتوں کے شیشے توڑتے ہیں اور آگ لگا کر رقص کرتے ہیں‘ یہ ملک ہے یا تماشا ہے‘ کراچی میں آج بھی سیکڑوں ایسے بزنس مین ہیں جو کام کراچی میں کرتے ہیں لیکن رہتے دوبئی میں ہیں‘ یہ صبح کی فلائیٹ سے آتے ہیں اور شام کو دوبئی چلے جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو ایسے حادثوں سے بچانا چاہتے ہیں۔
یہ اپنے پیس آف مائینڈ کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کیا ہم اپنے ایکشنز سے ان لوگوں کو صحیح ثابت نہیں کر رہے؟آپ نے کبھی سوچا ہمیں کیوں آدھا پاکستان دوبئی میں نظر آتا ہے؟ کیوں کہ غیر ملک ہونے کے باوجود وہاں لوگوں کی پراپرٹی اور جان دونوں محفوظ ہیں جب کہ ہم نے اس ملک کو اکھاڑا بنا کر رکھ دیا ہے لہٰذا آپ لوگوں کو تحفظ دیں‘ انھیں کام کرنے دیں یا پھر کسی دن ملک میں کام کرنے والے تمام لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک ہی بار پھانسی دے دیں تاکہ کم از کم یہ روز روز کی بک بک ختم ہو‘ ترقی‘ خوش حالی اور معاشی استحکام کی بکواس ایک ہی بار بند ہو جائے اور لوگ اپنی جہالت کو اپنا مقدر سمجھ کر مزے سے زندگی گزاریں اور بات ختم۔
The post ایک ہی بار appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2188139/268