گندم کی فصل تیار ہوئی، گندم کے ڈھیر لگا دیے گئے۔ ایک طرف بوریوں میں گندم تول کر بھری جا رہی ہے دوسری طرف بڑے بڑے ڈھیروں سے گاؤں کے مختلف پیشے والوں کو ان کے حصے کے مطابق گندم دی جا رہی ہے۔ نائی بھی حاضر ہو گیا، جس نے حویلی جا کر بڑے زمیندار کے بچوں کے بال بنائے تھے، اسے بھی اس کا حصہ مل گیا۔
لوہار جو اپنی بھٹی پر کوئلہ دہکا کر لوہا گرم کرتا، انتہائی سرخ ہونے پر اسے ہتھوڑے سے ناپ تول کر ایسی چوٹ مارتا کہ جس طرح کا چاہتا اوزار بنا کر زمیندار کو پیش کردیتا جسے اس کا صلہ مل بھی جاتا لیکن فصل تیار ہونے پر اس کا بھی حصہ ادا کردیا جاتا۔
وہ حلوائی جو مختلف تہواروں اور شادی بیاہ کے مواقعوں پر طرح طرح کے پکوان بنایا کرتا اسے بھی گندم کی فصل اترنے پر اس کا حصہ مل جاتا اور وہ موچی جو سال بھر جوتیاں مرمت کرتا موقع پر اسے اس کا مناسب معاوضہ مل بھی جاتا آج اسے بھی یاد رکھا جا رہا ہے اور گندم کی پیداوار سے اسے بھی اس کا حصہ مل رہا ہے۔
اس طرح ہر گاؤں دیہات کے بیشتر لوگوں کو مختلف فصلوں کی پیداوار کے مواقع پر ان کو ان کا حصہ مل جایا کرتا تھا اور اب بھی کہیں کہیں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن آج کل ہر معاملہ روپے پیسے میں تول کر کیا جاتا ہے۔ پہلے کسی بھی فصل کے ذریعے ادائیگی کرنی ہوتی تو دل کھول کر ایسا کرتے تھے اب چونکہ تمام پیمانے روپے پیسوں میں ڈھل گئے ہیں تو انتہائی کنجوسی کے ساتھ ادائیگی کرتے ہیں۔
اس لیے معاشرے سے برکت بھی ختم ہوچکی ہے۔ پچھلے سال کتنی وافر گندم ہوئی لیکن اس کی طلب بڑھنے سے قیمت بھی بڑھتی رہی۔ بڑی وافر مقدار میں گنے کی پیداوار ہوئی، چینی کی پیداوار حاصل ہوئی لیکن ایک مافیا کے باعث قیمت بڑھتی ہی رہی۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں کسانوں کے وفد سے ملاقات میں کہا کہ حکومت کسانوں کو شوگر ملز کے گٹھ جوڑ اور مافیا کے استحصال سے تحفظ فراہم کرے گی۔ گزشتہ 7 عشروں سے کسانوں کا استحصال ہی ہو رہا ہے۔
حکومت گنے کی فی من جو قیمت مقرر کرتی ہے اس سے کہیں کم ادائیگی کی جاتی ہے وہ بھی کئی قسطوں میں اور دیگر مسئلے مسائل اور مشکلات علیحدہ ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک سال کے دوران صرف چینی 21 فی صد مہنگی ہوکر رہ گئی ہے ابھی حکومت کی جانب سے باوجود کوشش کے یہ سلسلہ رکا یا تھما نہیں ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق 11 لاکھ 81 ہزار ہیکٹر رقبے پر گنا کاشت کیا گیا جس سے 6 کروڑ98 لاکھ ٹن پیداوار کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
پاکستان میں چند سالوں سے لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ ٹن سے زائد کی پیداوار رہی ہے جس سے چینی کی بھرپور پیداوار حاصل کی جاتی ہے جوکہ ملکی کھپت سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن کبھی چینی کی قلت کا شور و غوغا، کبھی مل مالکان کی طرف سے پیداواری لاگت کا جھگڑا، کسان اس بات سے نالاں کہ ان کو مقررہ قیمت نہیں ادا کی جا رہی۔ حال ہی میں اگرچہ پنجاب حکومت نے 200 روپے فی من گنا کی قیمت مقرر کی ہے۔ آج سے چند سال قبل فی من قیمت 180روپے مقرر تھی۔ جب چینی فی کلو 50 روپے تک دستیاب تھی۔
موجودہ حکومت نے اس شعبے کو ذرا سا چھیڑا ہی تھا کہ چینی کی پیداوار سے متعلق افراد بپھر گئے یا معلوم نہیں کیا وجہ ہوئی کہ قیمت 70 روپے سے اب 110 روپے فی کلو پہنچی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے اصل متاثر تو عوام ہو رہے ہیں اس کے ساتھ کسانوں کا بھی استحصال ہو رہا ہے۔
کچھ اس قسم کی صورت حال گندم سے متعلق بھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 92 لاکھ 10 ہزار ہیکٹر رقبے پر گندم کی کاشت عمل میں لائی گئی اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2 کروڑ70 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ سال جولائی تا مارچ کے دوران 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرچکے تھے۔ لیکن اس مرتبہ ہم گندم برآمد کرسکتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بڑی مقدار میں گندم چھپا دی جاتی ہے۔
اسمگل کردی جاتی ہے کہیں مصنوعی قلت پیدا کرکے مہنگے داموں فروخت کردی جاتی ہے۔ اگرچہ پنجاب میں 2کروڑ ٹن گندم کی پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ لیکن فی ہیکٹر کم پیداواری اوسط کی ایک وجہ بارانی علاقوں میں گندم کی پیداوار ہوسکتی ہے۔
جہاں نہری پانی دستیاب نہ ہونے کے باعث باران رحمت پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے شمالی علاقے خصوصاً پوٹھوہار کے علاقے جن میں چکوال، تلہ گنگ، تھوہا محرم خان کا وسیع تر رقبہ جہاں بارانی زمینیں ہیں، یہاں کی اہم فصلیں گندم، جو اور مونگ پھلی اور مونگ کی دال وغیرہ ہیں۔ بعض اوقات جڑی بوٹیوں کے سبب بھی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کسان جڑی بوٹیاں مار زہریلی دواؤں کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں محکمہ زراعت کی جانب سے یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ محکمہ زراعت کے عملے کے مشوروں سے دوا کا استعمال کریں۔
بتایا یہ جاتا ہے کہ کبھی عملہ دستیاب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ان کے مشورے ماہرانہ نہیں ہوتے۔ بہرحال گندم ہو یا کوئی اور فصل اس کی صحیح مقدار کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ جڑی بوٹیوں کو تلف کیا جائے۔ بصورت دیگر خاص طور پر گندم کی فصل کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ پیداوار میں 40 فی صد تک کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کے پی کے میں بھی فی ہیکٹر پیداوار دیگر صوبوں کی نسبت کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ 1889 کلو گرام فی ہیکٹر ہے۔ وہاں بھی بیشتر علاقے بارانی ہیں۔ اسی طرح پورے ملک کی اوسط پیداوار فی ہیکٹر مقدار میں کم ہے۔
زرعی سائنسدان،زرعی یونیورسٹیاں، زرعی تحقیقاتی ادارے اب کمر باندھ لیں کہ کسانوں کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ کھیتوں کھلیانوں کو جدید زرعی سائنسی علوم کے فوائد سے اس طرح آشنا کردیا جائے گا کہ اب کسان بھی 21 ویں صدی کے جدید زراعت کے اصول اپنا کر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح موجودہ فی ہیکٹر پیداوار سے دگنا یا تین گنا پیداوار حاصل کرسکیں گے۔ یقینی طور پر اس طرح سے بھی کسانوں کا استحصال ختم ہو کر رہے گا۔ زیادہ پیداوار زیادہ آمدن، کسان خوشحال ہوگا تو اس کے معاشی اثرات پورے پاکستان میں پھیل کر ملک بھی خوشحال ہوگا۔
The post کسانوں کا استحصال اور زرعی پیداوار appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2189065/268