افغانستان میں لڑائی شروع ہے۔ طالبان روزبروز اپنے زیر اثر علاقہ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اب ان کے خلاف مزاحمت بھی شروع ہو گئی ہے۔
ابتدائی طور پر ایسی خبریں آئی تھیں کہ افغان فوج ان کے مقابلے میں ہتھیار ڈال رہی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرتے جا رہے ہیں۔ لیکن اب مزاحمت اور دونوں طرف سے جانی نقصان کے علاوہ لوگوں کی لڑائی والے علاقوں سے نقل مکانی کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ طالبان آرہے ہیں اور بس ان کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ طالبان کو جھڑپوں میں بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ شاید طالبان دوسرے فریق کو زیادہ نقصان دے رہے ہیں۔ لیکن لڑائی ہونا اہم ہے۔ کیونکہ پہلے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ کوئی بھی طالبان کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے سب ہتھیار ڈالتے جا رہے ہیں۔ بلکہ ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ افغان فورسز کے کمانڈوز نے بھی ایک علاقہ میں مزاحمت کے بجائے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
تا ہم مزاحمت کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس لیے جن لوگوں کا یہ خیال تھا کہ طالبان بغیر کسی خانہ جنگی کے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیں گے ، ان کا یہ خیال غلط ثابت ہو رہا ہے۔ خانہ جنگی کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ طالبان نے ابھی تک کسی صوبائی ہیڈکوارٹر پر بھی قبضہ نہیں کیا ہے۔ کابل تو ابھی بہت دور کی بات ہے۔ کیا طالبان نے کسی حکمت عملی کے تحت خود کو صوبائی ہیڈ کوارٹرز اور کابل سے دور رکھا ہوا ہے۔ اگر ابھی تک طالبان نے کسی بڑے صوبائی ہیڈ کوارٹر پر قبضہ نہیں کیا ہے تو پھر یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ وہ افغانستان کے بڑے حصہ پر قابض ہو گئے ہیں۔
دور دراز علاقوں پر تو ان کا پہلے بھی قبضہ تھا۔ امریکی اور اس کے اتحادیوں نے کبھی اپنا اثر صوبائی ہیڈ کوارٹرز اور بڑے شہروں سے آگے نہیں بڑھایا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ اسٹرٹیجک اعتبار سے صورتحال کوئی خاص تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اب طالبان منظر عام پر آگئے ہیں۔ وہ اپنے قبضہ کا کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں۔ شاید پہلے وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے۔ اب وہ اپنی حاکمیت کا اعلان کرنے کی پوزیشن میں آتے جا رہے ہیں۔ اس لیے منظر نامہ بدلا بدلا نظر آرہا ہے۔
بین الاقوامی خفیہ اداروں کا پہلا اندازہ تھا کہ امریکا کے جانے کے بعد اشرف غنی دو سال تک اقتدار پر قابض رہ سکتے ہیں۔ لیکن حالیہ واقعات نے ان اندازووں کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ اب نئی رپورٹس کے مطابق اشرف غنی کی حکومت چھ ماہ بھی قائم نہیں رہ سکے گی۔ طالبان چھ ماہ میں ان کو گرا دیں گے۔ اشرف غنی کا حالیہ دورہ امریکا بھی کوئی خاص کامیاب قرار نہیں دیا جا رہا ہے۔ایک عمومی رائے یہی بنی ہے کہ امریکا اشرف غنی کے اقتدار کو بچانے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر طالبان نے بندوق کی طاقت سے افغانستان پر قبضہ بھی کر لیا تو ان کی حکومت کو مانے گا کون۔ ویسے بھی خانہ جنگی کا فائدہ کس کو ہوگا۔ چاہے خانہ جنگی کم ہی ہو لیکن خانہ جنگی تو ہو گی۔ بندوق کی طاقت پر تو طالبان نے پہلے بھی افغانستان پر اپنی حکومت قائم کر لی تھی لیکن کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اگر اب بھی طالبان نے بندوق کی طاقت پر افغانستان پر قبضہ کر لیا تو ان کی حکومت کو تسلیم کون کرے گا۔ کیا طالبان نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے۔
سب سے اہم سوال یہی ہے کہ طالبان کے نظام حکومت میں شراکت ممکن نہیں۔ وہ کسی کو ساتھ ملا کر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ مکمل حاکمیت کے قائل ہیں۔ وہ کسی مخلوط نظام حکومت پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی لیے مسائل ہیں۔ ان کے نزدیک جہاں ان کا قبضہ ہے وہاں ان کی حکومت ہے۔ لیکن شاید بین الا قوامی دنیا میں یہ ممکن نہیں۔ طالبان کو کوئی نہ کوئی نظام حکومت دینا ہوگا جس میں دوسرے فریق کی شرکت ممکن ہو۔
طالبان کو بلا شبہ اس وقت عالمی سطح پر ایک قبولیت حاصل ہے۔ تمام ممالک طالبان سے بات کر رہے ہیں، لیکن یہ سب طالبان کی حکومت قبول کر لیں گے۔ یہ ممکن نہیں۔ طالبان کو اپنی حکومت کو قبول کروانے کے لیے اسے ایک جائز حکومت کی شکل دینا ہوگی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس دفعہ پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے لیے بھی فوری طورپر طالبان کی حکومت قبول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ طالبان کے گزشتہ دور میں ان تین ممالک نے طالبان کی حکومت قبول کر لی تھی۔ لیکن اس دفعہ ان ممالک کے لیے بھی ایسا کرنا مشکل ہوگا۔ یا تو پوری دنیا طالبان کی حکومت قبول کرے گی یا نہیں کرے گی۔ اس لیے طالبان کو کہیں نہ کہیں بات چیت کے دروازے کھولنا ہونگے۔ سولو فلائٹ ان کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ اشرف غنی بھی اس وقت طالبان سے بات چیت کے لیے تیار نظر نہیں آرہے۔ شاید انھیں اندازہ ہے کہ طالبان جتنے بھی مضبوط ہوں ان کے لیے کابل پر قبضہ کرنا آسان نہیں۔ جب تک طالبان عالمی دنیا کو قائل نہیں کریں گے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار ہیں تب تک کابل پر قبضہ طالبان کے مفاد میں بھی نہیں ۔ یہ بات طالبان کے مخالفین جانتے ہیں۔ وہ اسی پر کھیل رہے ہیں۔
ایک طرف طالبان اپنا اثر بڑھا رہے دوسری طرف ان کے مخالف انتظار کر رہے ہیں کہ کب طالبان ان کے ساتھ میز پر بیٹھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ طالبان جب کابل کے قریب پہنچ جائیں گے اور کابل کا محاصرہ کر لیں گے تب طالبان اشرف غنی سے بات کریں گے۔ لیکن کیا تب تک دیر نہیں ہو جائے گی۔ خانہ جنگی بڑھ نہیں جائے گی۔ ابھی سے ہی خانہ جنگی کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔
طالبان افغانستان میں کسی بھی انتخابی عمل میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ انتخابی عمل اور ووٹ کی طاقت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ انھوں نے نہ تو پہلے ملک میں کوئی انتخابی نظام رائج کیا تھا اور نہ ہی اب بھی وہ کسی انتخابی نظام کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن پھر وہ اپنی حکومت کو قانونی حیثیت کیسے دیں گے۔
طالبان کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ عرب ممالک ،چین اور روس میں کونسی جمہوریت ہے۔ وہاں کونسا انتخابی نظام رائج ہے۔ لیکن یہ دلیل مانی نہیں جائے گی۔ طالبان کو اپنے اقتدار کو قانونی شکل دینے کا کوئی تو راستہ نکالنا ہوگا۔ جو ابھی ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔
طالبان پرانے طریقہ سے افغانستان پر قبضہ تو کر سکتے ہیں لیکن دنیا میں اپنی حکومت کو منوا نہیں سکیں گے۔ عالمی تنہائی ان کے لیے پہلے بھی زہر قاتل ثابت ہوئی تھی اور اب بھی زہر قاتل ثابت ہو گی۔ اس حوالہ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پاکستان کی صورتحال بھی عجیب ہے ایک طرف ہم طالبان کے وکیل بھی ہیں دوسری طرف ہم نے اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم بھی کیا ہوا ہے۔دونوں طرف چلنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اشرف غنی اپنے ڈوبتے اقتدار کا ذمے دار ہمیں سمجھ رہے ہیں۔ اور طالبان کو بھی شکایت ہے کہ ہم کھل کر ساتھ نہیں آرہے۔ اس لیے صورتحال بہتر نہیں ہے۔
The post طالبان کابل سے کتنا دور؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2195649/268