11News.pk | Online News Network
11News.pk | Online News Network

کشمیر کے موجود حالات اور عرب ممالک کے انڈیا کے ساتھ تعلقات

کالم نگار بیورو چیف الیون نیوز اوکاڑہ رائے رضوان اقبال کھرل

26
اگست
2019

مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات اور عرب ممالک کے انڈیا کے ساتھ تعلقات سے خطے میں ایک نئے دور کے آغاز نے جہاں پر بہت سارے پاکستانیوں کو بے چین کیا ہے وہیں پر پاکستان کے سلامتی اور سالمیت کے حوالے سے بھی کئی سوال اٹھائے جانے لگے ہیں
پاکستانیوں نے واضح طور پر محسوس کیا ہے کہ پاکستان جو آج تک مسلم امہ کے حوالے سے ایک بنیادی کردار کا متقاضی تھا سر کے بل گرا ہے۔۔ اور اس خواب غفلت سے جاگنے کی وجہ عرب ممالک کی طرف سےعین موقع پر آکر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جانا ہے 
ان تمام امور امور پر اگر نظر ڈالیں تو دو باتیں واضح ہیں سب سے پہلے کشمیر کے موجودہ حالات یہ حالات کوئی ایک دن کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ گذشتہ 72 سال سے یہ سارا سلسلہ چلتا نظر آ رہا ہے تو کیا ایک دن میں اس میں بنیادی بدلاو آسکتا ہے تو ایسا ناممکن ہے تو کیا پاکستانی ریاست کی موجودہ رویہ اور حکمت عملی اس حوالے سے مناسب عمل ہے اس سوال پر بات کی جاسکتی ہے گزشتہ ادوار میں ہماری حکومتیں کیسی رہی کیا کرتی رہی ان کی کارکردگی کیا رہی اس بات کو پھر کسی وقت پہ زیربحث لانے کے لئے چھوڑ دیتے موجودہ حالات میں اس وقت سوائے چند ایک ممالک کے باقی تمام ممالک ہندوستان کے ہم نوا ہیں اور پاکستان کے لئے یہی بات بہت بڑی ہے کہ سلامتی کونسل میں مسئلہ اٹھایا گیا ہے کشمیر صرف ایک علاقہ یا اسلامی جذبات اور مذہبی ہم آہنگی اور پاکستانیت کے حوالے سے اہم نہیں بلکہ پاکستان کے تمام آبپاشی پانی کا دارومدار بھی کشمیر پر ہے پاکستان کے تمام دریاؤں کا منبع کشمیر سے ہے اس لئے کشمیر پر کوئی کمزوری دکھانا یا کوئی بزدلانہ فیصلہ کرنا کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے پاکستانی حکومت نے سفارتی محاذ پر قابل ذکر کام کیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر میں موجود بھارت مخالف جذبات کو مناسب انداز میں مدد کے ذریعے بھارت کی 8لاکھ فوج کو وہاں پر اگر دو سال تک رکھ لیا گیا تو بھارت بذات خود ٹکڑے ہوجائےگا بھارت کا اس وقت کے زرمبادلہ کے ذخائر 436 ارب ڈالر ہیں جبکہ اس کا تجارتی خسارہ 57 ارب ڈالر ہے اور اس کا ایک سال کا دفاعی بجٹ 61 ارب ڈالر ہے جس سے ایک چیز واضح ہے کہ کشمیر میں حالات کی مزید خرابی بھارت کے دفاعی بجٹ تجارتی خسارے پر بہت برا اثر ڈالے گی مزید یہ ہے کہ اس وقت بھارت میں سردبازاری کا عروج ہے صنعتیں بند ہورہی ہیں صرف آٹو سیکٹر میں دس لاکھ کے قریب نوکریاں ختم ہوئی ہیں اور بے روزگاروں کی تعداد چار کروڑ افراد سے زیادہ ہوچکی ہے کاروبار بند ہونے سے بڑے پیمانے پر قرضے ڈوب چکے ہیں جس سے بینکوں کا دیوالیہ نکلا ہوا ہے معیشت کو سنبھالنے کے لئے مودی حکومت نے گزشتہ ہفتے ہی ایک بہت بھاری مالیت کا مالیاتی پیکیج دیا ہے معاشی ترقی اور نمو چھ فیصد سے بھی نیچے آ گئی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ دو سال کے عرصے میں اگر انڈیا تنازع میں الجھا رہا تو وہ معاشی طور پر کنگال ہو جائے گا اور اس امر کا اندازہ بھارتی پالیسی سازوں کو بھی ہے بھارت عالمی سطح پر بھی کشمیر کے حوالے سے بہت بدنام ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ انڈین پاسپورٹ کے درجے میں کمی ہےجو کشمیر پر آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد پانچ درجے گرا ہے اور عالمی رینکنگ میں 86 نمبر پر چلا گیا ہے جبکہ بہت سے ممالک جن میں کینیڈا بھی شامل ہے نے بھارتی فوجیوں اور ایم شخصیات کو ویزے دینا بند کر دیے ہیں کیونکہ الزام یہ ہے کہ یہ اشخاص کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب رہے ہیں خالصتان کا معاملہ بھارتی حکومت کے لیے ایک نیا درد سر ہے جس کو کشمیر کی جدوجہد سے جلا ملے گی اور 2020 میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد خالصتان کا معاملہ کشمیر سے بھی آگے نکل جائے گا پاکستانی حکومت نے کرتار پور بارڈر کو کشمیر کے مسئلہ سے الگ کرکے انتہائی زیرک دانشمندی دکھائ ہے جس کے اثرات جلد نظر آنے شروع ہوگئے جب سکھوں میں بے چینی پھیلے گی تو ہندوستانی حکومت کس مشکل میں ہوگی وہ آپ سب دیکھیں گے اور ہم سب بہت جلد کشمیر میں ایک بھرپور مکمل آف تیزترین جنگ آزادی جو مسلح صورت میں ہوگی کو ہوتے دیکھیں گے لیکن ابھی اس کے لیے میدان تیار ہو رہا ہے

درحقیقت کشمیر کے علاوہ علاقائی محاذ پر بھی نئی صف بندی ہورہی ہے حلیف دشمن بن رہے ہیں دشمن حلیفوں کی صفوں میں آتے جارہے ہیں ایک نیا بلاک ترتیب پا رہا ہے جس کی قیادت چائنا کے پاس ہے اور روس اس کا سب سے فعل ممبر ہے اس کے علاوہ اس بلاک میں ترکی ایران اور قطر شامل ہیں
دوستوں نے پچھلی پوسٹوں میں اس سوال کو اٹھایا تھا کہ پاکستان نے یمن میں اپنی فوج نہ بھیج کر عرب ممالک کو ناراض کیا ہے تو ایک بات میں اپنے دوستوں کی خدمت میں واضح کردوں کہ شاید اگر پاکستان نے اپنی تاریخ میں کوئی صحیح فیصلہ کیا ہے تو وہ یمن میں فوج نہ بھیج کر کیا ہے ورنہ اب تک نہ صرف پاکستانی فوج تباہ ہو پر باد ہو چکی ہوتی بلکہ ہزاروں شہداء کا خون بھی اس فیصلے کے گردن پر ہوتا اب دوست اس کو مسلکی تناظر میں مت دیکھیں اور موجودہ حقائق پر نظر ڈالیں

پاکستان کے انکار کے بعد سوڈان نے اپنی فوج یمن میں بھیجی تھی اس کا خمیازہ اس صورت میں بھگتنا پڑا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے باہمی رنجش کو سوڈان کی سیاست میں منتقل کر دیا اور صرف چھ ماہ کے اندر عمر حسن البشیر اپنی 30سالہ حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں سوڈانیوں کا قتل ہوگیا جبکہ اس کے علاوہ آپ سوڈان میں آج بھی انقلاب اور رد انقلاب کی تحریک کی سورت میں خون صرف سوڈانیوں کا ہورہا اور پیسہ سعودی عرب ترکی قطر اور یواے ای کا استعمال ہو رہا ہے اور مجموعی طور پر سوڈان میں حکومت کی تبدیلیوں پر یہ ممالک بیس ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کر چکے ہیں 
اگر یہی غلطی پاکستان دہراتا تو ابھی تک آپ کے ملک میں خانہ جنگی ہوچکی ہوتی اور اس وقت تک چار یا پانچ حکومتیں بدلتی اور مارشل لاء لگتے آپ خود دیکھ چکے ہوتے اور اس کے بعد انڈیا ہمارے ساتھ کیا کرتا آپ کو بتانے کی صرورت نہیں ہے اور مسلکی فالٹ لائن کو کیسے استعمال کیا جاتا اور اس سے کیا تباہی ہوتی وہ بھی آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے 
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یمن میں اس وقت عرب اتحاد اور حوثیوں کے درمیان لڑائی نہیں ہورہی بلکہ عرب اتحاد کے اندر لڑائی ہورہی ہے جس میں یو اے ای کے حمایت یافتہ ملیشیا نے سعودی حمایت یافتہ حکومت پر حملہ کردیا ہے اور عدن کے شہر جو کہ قائم مقام دارلخلافہ ہے پر قبضہ کرلیا اور اس سارے قضیے میں سیکڑوں سوڈانی فوجی مارے گئے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں شروع میں سعودی عرب نے کافی بڑا وظیفہ اور معاوضہ سوڈانی مرنے والے فوجیوں کے لیے مختص کیا لیکن بعد ازاں یہ رقم جنرلز کو چلی گئی اور آج سوڈانی فوجوں کو سوڈان میں لاشیں جانے کے بعد کفن تک نصیب نہیں اور ان کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جاتا ہے اور اس کے لئے وہاں کے عالم سے فتویٰ بھی حاصل کرلیا گیا اب پاکستان کو سوڈان کی حالات کی جگہ رکھ کر سوچیں رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

اس سارے قصے میں قطر اپنی اہمیت منوا چکا ہے اور ترکی کے ساتھ مل کر عرب ممالک کے مقابلے میں ایک اتحاد بنا چکا ہے اور ریاستی طور پر اخوان المسلمون کو بھی اپنا ہم عقیدہ بنا چکا ہے یہ تنظیم عرب معاشرے میں مکمل طور پر سرایت کی ہوئی ہے اور کسی وقت کسی ملک میں کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ اس بلاک میں ایران بھی شامل ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ قطرکی تمام خوراک کی ضروریات ایران کے ذریعے پوری ہورہی ہے قطر ایرانی فضائی حدود بھی استعمال کر رہا ہے جبکہ ملائیشیا اور ترکی کے درمیان بھی مثالی تعاون فروغ پارہے ترکی کا جھکاوں روس کی طرف ہونے کی وجہ سے اور ایران کا جھکاؤ چین کی طرف ہونے سے ایک فطری بلاک تشکیل پارہا ہے اور مستقبل قریب میں پاکستان بھی امریکی بلاک کو چھوڑ کر مہاتیر۔ محمد رجب طیب اردگان اور شیخ تمیم کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے 
عرب ممالک کو ان تمام امور کا مکمل طور پر اندازہ ہے بحرین کی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی ہے کیونکہ وہاں پہ شیعہ اکثریتی آبادی کو ایران نے بہت زیادہ بڑھاوا دیا ہے شام میں خانہ جنگی ختم ہوگئی ہے لبنان میں حزب اللہ نئی قوت کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور سعودی عرب نے اپنے اتحادی سعد الحریری کو قید کرکے عرب دنیا کو بہت ہی منفی پیغام دیا تھا جس کے خمیازہ ادا کرنا پڑے گا اس لئے عرب ممالک کی طرف سے ہندوستان کے قریب آنا اور ہندوستان میں محفوظ سرمایہ کاری کرنا قابل فہم ہے ہمیں سمجھنا یہ ہے کہ امہ کا تصور جو پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ہے اب ناپید ہو چکا ہے کیونکہ موجودہ ریاستی ڈھانچوں اور علمی دنیا میں امہ کی صورت میں کسی حوالے سے کوئی تحریک نظر نہیں آتی
پاکستان کو اس وقت اپنا بجٹ کا خسارہ کم کرنا ہے ٹیکس نیٹ بڑھانی ہے ایکسپورٹ میں خاطرخواہ اضافہ کرنا ہے۔۔اور واجب الادا قرضوں کا بوجھ کم کرنا ہے اسٹیل مل اور واپڈا میں اصلاحات کرنی ہے پاکستان پی آئی اے اور پوسٹ آفس کو منافع بخش ادارہ بنا چکا ہے سرکاری کارپوریشنوں کو اگر منافع بخش اگلے سال تک بنالیا گیا یا ان کا خسارہ کم کرلیا گیا تو سمجھے کہ پاکستان کے میں واپس آگیا اگر ہم ایسا نہ کرسکے اور اپنی معاشی استحکام کی طرف نہ گئے تو پھر کشمیر کو بھول جائے اور پاکستان کے استحکام کی خیر منائیں اچھی بات یہ ہے کہ کام شروع ہے اور درست سمجھ شروع ہے ایک سال یکسوئی سے کام کر لیجئے اس کے بعد یہ تمام عرب ممالک اپنے ایوارڈوں کے سمیت اسلام آباد میں ہوں گے اور مودی کی داستان نہ ہوگی داستانوں میں 
اس تحریر کے بعد دوستوں کے لیے متحدہ عرب امارات میں مودی کی آؤ بھگت اور استقبال ویڈیو دیکھئے اور پھر حالات کو ٹھنڈے دل سے سمجھئے (اور برائے مہربانی تحریر کاپی کرنے کی بجائے شیئر کیجئے )
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post