بیورو چیف الیون نیوز اوکاڑہ رائے رضوان اقبال
کھرل
08اپریل
2019
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا شور ھے۔ ۔
۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہش پورا نہ ہونے کو بولتے ہیں۔۔
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (سواگہ) لگایا کرتے تھے۔۔
(سلیٹ)پر سیاہی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (سیل کا سکہ) استمعال کرتے تھے۔
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔
جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔
اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔
گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔ مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔
آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کرکے گھر رکھے ہوتے ہیں۔ ۔
روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں۔
آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔
ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔
آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا،گلے میں سونے کی زنجیر ہاتھ پہ گھڑی۔۔
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے...
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں غریب ہوں۔
آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے