صحافت کی آبرو تھا وہ
کالم نگار: شاہد مشتاق۔سمبڑیال
چاروں طرف لہلہاتے سرسبز کھیتوں میں گھرے گاوں بیگوالہ( سمبڑیال) میں ایک ڈیرہ ہے جس کی بیرونی دیوار پہ ایک پیارے سے نوجوان کی تصویر بنی ہوئی ہے، جس کے ساتھ میرے ہی چند خراج عقیدت بھرے اشعار لکھے ہوئے ہیں ، کبھی اس ڈیرے میں صحافت کی آبرو شہید ذیشان اشرف کے قہقہے گونجتے تھے ۔
یہ خوش اندام و خوش خصال نوجوان چھوٹی سی عمرمیں صحافت کے خارزارمیں اترا اور پھر سب کا اعتماد حاصل کرکے پریس کلب سمبڑیال کا چئرمین منتخب ہوگیا۔ اس کے حسن اخلاق اور پاکیزہ اطوار نے نا صرف سینئر صحافیوں بلکہ نوجوانوں کو بھی اس کا گرویدہ کردیا ، یہ تھا ہی ایسا کہ جو ایک بار اس سے ملتا اسی کا ہوکہ رہ جاتا۔
پھر27مارچ2018 کا دن آتاہے ، ذیشان اشرف بٹ اپنی صحافتی ذمہ داریاں دیانت داری اور بےخوفی سے ادا کرنے کی پاداش میں صبح دس بجے کے قریب یونین کونسل کے برآمدے میں قتل کردیاجاتاہے،حق و صداقت کی ایک آوزا ہمیشہ کے لئے بند کردی جاتی ہے ۔قاتل اسی گاوں کا یوسی چئرمین عمران اسلم چیمہ ہے ۔
اگلے دن جنازے کے بعد اراکین پریس کلب سمبڑیال ناصر ورائچ کی قیادت میں پرزور احتجاج اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ پورے ملک میں کہرام مچ جاتا ہے، ہر اخبار ، ہر چینل اس واقعہ پہ رپورٹنگ کرتاہے، تمام صحافی برادری اور ان کی تنظیمیں احتجاج میں شامل ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کالم نگاروں کی ایک بڑی تنظیم " پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ پاکستان" جناب ناصر اقبال خان صاحب(ایڈیٹر روزنامہ الشرق ) کا "ورلڈ کالمسٹ کلب" اور " پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ"سمیت تمام چھوٹے بڑے نظم اس اندوہناک قتل کی پرزور مزمت اور مقتول کے ورثاء کو انصاف دلانے کا مطالبہ کرتےہیں ۔ چیف جسٹس صاحب ازخود نوٹس لیتے اور آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرتے اور مجرموں کو فورا" گرفتار کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں ۔ ذیشان اشرف بٹ (سابق چئرمین پریس کلب سمبڑیال)کا قتل ایک بڑا سانحہ اور ملک کے اہم ترین کیسز میں سے شمار ہوتا ہے ، سیالکوٹ کے ہر سابق اعلی افسر اور حالیہ ڈی پی او امیرعبداللہ خان نیازی نے بھی قاتلوں کی جلد گرفتاری کے دعوے کئے ، امیر عبداللہ خان نیازی عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد مقتول کے گھر پہنچے اور انہیں یقین دلایا کہ وہ ہرممکن وسائل قاتل کی گرفتاری کے لئے استعمال کریں گے ۔ قارئین کرام ! یہ تھی اس کیس کی اب تک کی ضروری تفصیل جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ، لیکن! افسوس کا مقام یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ایکشن اور پولیس کی تمام ترمستعدی کے باوجود مرکزی ملزم ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا،حالیہ ڈی پی او کی کوشش سے محکمہ پولیس نے اب مجرم کی گرفتاری کے لئے پانچ لاکھ روپے کےنقد انعام کا اعلان بھی کیاہے ۔
چند ہفتے قبل جب میں مقتول کے بڑے بھائی عرفان اشرف بٹ سےسیالکوٹ نیوز کی طرف سے انٹرویوکے سلسلے میں ملاتھا ، تو وہ پولیس کے کردار سے کچھ خاص مطمئن دکھائی نہیں دیتے تھے ۔تاہم ایک سوال کا جواب دیتےہوئے انہوں نے صحافی برادری کا شکریہ اداکیا۔ حقیقت یہ ہےکہ اب تک اس کیس میں جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے یہ بھی صحافی برادری کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ سیالکوٹ و سمبڑیال پریس کلبز کے عہدیداران و اراکین بالخصوص جناب ناصر وڑائچ، عنصرمحمودبٹ،اور راناجعفرحسین، عثمان بٹ صاحب، تقی خان، میاں سہیل ودیگردوست تحسین کے حقدار ہیں کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ورثاء کو انصاف دلانے کی کوشش میں دن رات جتے ہوئے ہیں ۔
جناب وزیراعظم عمران خان سے
مجھ سمیت ہر صاحب قلم یہ پوچھتا ہے کہ ریاست کے چوتھے اہم ترین ستون کی آبرو شہیدذیشان اشرف کے قاتل آخر کب گرفتار کئے جائیں گے، کب اس کے والدین کو انصاف ملے گا؟ ۔