انسان امن نہیں چاہتا
(رانا عمر علی)
السلام علیکم۔ سلامتی ہو آپ پر اور سلامتی ہو ہم پر۔ جنابِ سپیکر 15 مارچ کا دن اب ہمیشہ کے لیے ہمارے مجموعی یادوں میں نقش رہے گا۔جمعہ کے ایک پرسکون دوپہر کو ایک شخص نے ایک پرامن عبادت کی جگہ پر حملہ کیا اور 50 افراد کی جان لےلی۔ وہ پرسکون جمعہ کا دوپہر ہمارے دنوں کا تاریک ترین دن بن گیا۔ یہ وہ دن تھا کہ مسلمان نماز کا سادہ عمل جو اپنے عقیدے کے مطابق کرتے رہے وہ اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے وہ پیارے بھائی تھے، بہنیں تھیں، باپ اور بچے تھے وہ نیوزی لینڈ کے تھے وہ ہمارے تھے۔ ہم ایک قوم کے طور پر ان کا ماتم کرتے ہیں۔ میں متاثرہ خاندانوں سے براہِ راست مخاطب ہوتی ہوں کہ ہم آپ کا غم نہیں جان سکتے لیکن ہم ہر مرحلے میں آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں ہم محبت اور مہمان نوازی سے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں اور دیں گے۔ اور حملہ کرنے والے شخص کے خلاف قانون کے تحت کاروائی ہوگی۔ آپ مجھے اس کا نام لیتے ہوئے نہیں سنیں گے۔ وہ ایک دہشت گرد ہے مجرم ہے انتہا پسند ہے۔ عزیزانِ من۔ کرائسٹ چرچ مسجد پر حملے کے بعد نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں متاثرہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کچھ ان الفاظ کے ساتھ کی۔ جو قابلِ تحسین ہے ۔ اور اسی طرح پوری دنیا کے مذہبی حلقوں سے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی۔ خصوصاً مغربی دنیا میں جو ردعمل سامنے آیا وہ یہ کہ جتنی شدت کے ساتھ انہوں نے اس واقعے کی مذمت کی اس سے زیادہ ان بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کی گئی۔ جس نے صدیوں کی تاریخ کو بدل دیا اور دنیا نے انسانیت کا اصلی چہرہ دیکھ لیا۔ کہ یہود جیسی قوم نے اپنے عبادت خانے اور عیسائیوں نے اپنے گرجے صرف اس لیے بند کیے کہ آج مسلمانوں کی دو مساجد بند ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ آج عیسائی مسلمانوں سے کہہ رہےہیں کہ آپ نماز پڑھے ہم آپ کی حفاظت کے لیے پہرہ دیں گے؟ اور صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ یہاں تک کہا کہ مساجد کھلنے تک آپ اپنی نمازیں ہمارے گرجوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کیا وجہ ہے کہ آج عیسائی، یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے لیے عبادت خانے کھول رہیں ہیں؟ عزیزانِ من۔ یہ انسانیت ہے اور یہ وہ انسانیت ہے جس کا درس محمد رسول اللہ نے دیا تھا۔ کہ سارے لوگ آدم کے اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنا ہے۔ اور قرآن مجید اس بات کی وضاحت کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو دین ایک ہی ہے ( ان الدین عند اللہ الاسلام) یعنی خدا نے دین ایک ہی اتارا تھا جس کا حکم سارے انبیاء کو کیا گیا تھا چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ ( اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم نوح کو دیا گیا تھا اور جس کا حکم اے نبی آپ کو دیا گیا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراھیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ قائم کرو دین کو اور اس میں اختلاف نہ کرو) یہ لوگوں کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ محض مذہبی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کو قتل کریں۔ البتہ دینی امور میں جو اختلافات رونما ہو چکے ہیں ان کا فیصلہ خود پروردگار عالم قیامت کے دن فرمائیں گے چنانچہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ (یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی کسی درجے میں بھی نہیں ہے حالانکہ وہ اللّٰہ کی کتاب پڑھتے ہیں ایسی باتیں دوسرے جاہل لوگ بھی کرتے ہیں تو ان کے درمیان ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللّٰہ ہی کریں گے) آج نیوزی لینڈ کے عیسائیوں نے جو تاریخ دہرانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان اگر چاہیں تو ہمارے گرجوں میں اپنی نمازیں پڑھ سکتے ہیں میں قربان جاؤں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے 1400 سال پہلے اس کو بھی عملاً کرکے دکھایا۔ ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا جنہیں آپ نے مسجد نبوی میں اتارا اور ان کو اجازت دی کہ وہ اپنی عبادت اپنے طریقے پر مسجد نبوی ہی میں ادا کریں چنانچہ وہ لوگ مسجد نبوی کی ایک جانب میں اپنی عبادت کرتے اور رسول خدا صحابہ کے ساتھ دوسری جانب نماز پڑھتے تھے۔ لیکن آج تو ہم کسی غیر مسلم کو اپنی مسجد میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انہیں مسجد نبوی میں رہنے اور عبادت تک کرنے کی اجازت دی تھی عزیزانِ من۔ سانحہ نیوزی لینڈ نے یہ ثابت کردیا کہ انسانیت آج بھی کسی نہ کسی حد تک باقی ہے لیکن یہ وہ چند عناصر ہے جو انسانیت کے اس جزبے کو ایک تناور درخت بننے سے روکتی ہے جب اس کی شاخیں بڑھنے لگتی ہیں تو اس پر مذہب، رنگ ونسل، زبان یا ملی تلوار سے ضرب لگا کر کاٹ ڈالی جاتی ہیں۔ اور انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انسانیت جو ارتقائی مراحل سے گزر کر ابھی ابھی ملوکیتی دور سے نکل کر جمہوری دور میں داخل ہوئی ہے جس کے صرف چند عشرے ہی ہوئے ہیں پھر بھی قومیت کے مسلئہ کوہوا دیکر ایک دوسرے کو قتل کیا جارہا ہے۔ یعنی اگر ایک پاکستانی غلطی سے سرحد کے اس پار چلا جائے تو اس کو قتل کرنے کا حق ہندوستانیوں کو حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر آپ اپنے پڑوسی ملک سے بغیر کسی وجہ کے بھی نفرت کا اظہار نہ کریں تو آپ کو غدار تصور کیا جاتا ہے۔ اگر آئرلینڈ میں آپ کسی آئرش کوبوجہ ادب کے سر کہے تو وہ آپ کو برطانوی سمجھ کر نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ چند ہزار لوگ ہے جنہوں نے اربوں انسانوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے جو اربوں انسانوں کے فیصلے کرتے ہیں اور وہ چند ہزار لوگ دنیا کے ہر قوم، ہر طبقے میں موجود ہیں دنیا کے ہر ادارے پر ان لوگوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ وہ لوگ کون ہیں اس کی میں وضاحت نہیں کرسکتا ورنہ یہ تحریر نہیں چھپی گی کیونکہ آزادی تو آج ایک پرندے کو بھی ایک حد تک حاصل ہے اگر وہ پرندہ بھارت کے حدود میں داخل ہوتا ہے تو اُسے پاکستانی سمجھ کر ماردیا جاتاہے۔ ہاں میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ ان لوگوں کا مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے دولت اکٹھی کرنا۔ جس کی ایک مثال یوں سمجھ لیں کہآج انسان نے میڈیکل سائنس میں کتنی ترقی کی ہے جس کی بدولت جان لیوا بیماریوں کا علاج دریافت کیا جا چکا ہے۔ ایسے ادارے جو بیماریاں ختم کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں وہ ادارے ان ہی بیماریوں کو پیدا بھی کرتے ہیں۔ اور ان کو فائدہ صرف دولت کمانے کا ہوتا ہے۔ عزیزانِ من۔آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ ہیپیٹائٹس سی کس نے ایجاد کیا۔ کینسر کن کی دوائیوں کا اثر۔ دنیا میں انڈسٹری کے نام پر لوگوں کے پھیپھڑے کس نے خراب کیے۔ کیوں فارماسیوٹیکل کے نام پر ساری دنیا کو بیمار کیا جارہا ہے۔ وہ کونسی میڈیسن ہے جس کے ردعمل سے 11 سالہ بچی بالغ ہوجاتی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو اب تک ظاہر ہوچکی ہیں نہ جانے کتنی باتیں ابھی تک پوشیدہ ہے۔ ایک عالمی مائیکرو بائیولوجسٹ اور ایڈز کے علاج پر تحقیق کرنے والے بڑے ڈاکٹر"رابرڈ گلو" نے کہا کہ ہمیں مجبور کیا گیا تھا کہ ایڈز کے وائرس ایچ آئی وی کو پیدا کریں۔ اگر آپ غور کریں تو دنیا کی ادویہ سازی کے بین الاقوامی و قومی ادارے کمپنیاں، ڈاکٹرز اور ابلاغ عامہ کے ذرائع ایک طاقتور مافیا بن چکا ہے جو انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اور اس میں ان کے ساتھ سیاستدان طبقہ بھی ملوث ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی ادویات بنانے والے کمپنیوں میں 48 فیصد کمپنیاں سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی اور رہنماؤں کے ہیں۔ نیو کیسل آسٹریلیا یونیورسٹی کے ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ادویہ سازی کی مختلف کمپنیاں صحت مند لوگوں کو شک اور وسوسوں میں مبتلا کرکے ان کو بلا ضرورت ادویات دیتی ہے ۔ جس کے لیے میڈیا کو ہتھیار بنایا جاتا ہے اور لوگوں کو ہراساں کرکے اشیاء بیچی جاتی ہیں اور لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اکثر اپنی قریب المیعاد ویکسین اشتہاروں کی بناء پر فروخت کرتی ہیں۔ محقق حضرات سے میری گزارش ہے کہ آپ ڈاکٹر"پیٹر گوتشو" کی کتاب' ڈیڈلی میڈیسن اینڈآرگنائزڈ کرائم' کا مطالعہ ضرور کریں جس میں انہوں نے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں بشمول فائزر، جی ایس کے، نوارٹز وغیرہ جیسی درجن بھر کمپنیوں کی دوائیوں کے بارے میں بتایا ہے۔ اور خصوصاً سائیکائسٹری ڈاکٹرز کے تجویز کردہ ادویات کو نشانہ بنایا ہے۔ ڈاکٹر پیٹر کا دعویٰ ہے کہ ان بڑے فارماز کے دوائیوں کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ مرتے ہیں۔ عزیزانِ من میں نے صرف میڈیسن کے شعبہ کا مختصر جائزہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ جو ان چند ہزار لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اربوں لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اگر آپ خود باقی شعبوں کا جائزہ لیں گے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ مذہبی مافیا سے لیکر حکمرانوں تک کوئی بھی اس دنیا میں حقیقی امن و سلامتی نہیں چاہتا۔ جس کی وجہ سے کرائسٹ چرچ جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں